جنازے بارات سے بڑے ہوتے ہیں


اداس نسلیں کے مصنف عبداللہ حسین کی وفات پر چند لوگ تھے۔ جو انہیں قبرستان تک چھوڑ آئے تھے۔ سگا بیٹا لندن میں تھا۔ بیوی بھی ان سے ناراض تھی اور آخری دم تک ناراض رہی۔ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اتنا بڑا ادیب جس کی تخلیقات ہمیشہ سدا بہار اور نصف صدی سے زائد عرصہ عوام میں مقبول رہی۔ پاکستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ سے لے کر بیسوں ایوارڈز وہ حاصل کر چکا۔ ہزاروں مداح اس سے آٹو گراف لینے پر فخر محسوس کرتے تھے۔

آج اس کے جنازہ پر فقط تین چار دوست اور چند ہمسائے اور راہ چلتے راہگیر شامل تھے۔ وہ مداح اور باقی ادب دوست احباب کہاں کھو گئے؟ پھر کسی نے کہا کہ وہ بہت کم گو اور بہت ریزرور رہتے تھے۔ بعض اوقات کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور کسی ادیب اور ادبی تقاریب کو لفٹ ہی نہیں کراتے تھے۔ زیادہ عرصہ لندن میں مداحوں اور لوگوں سے دور رہتے گزری۔

سچی بات ہے اب کوئی انسان چاہیے وہ ادیب ہو فنکار یا بیورکریٹ۔ اگر وہ عاجزی ملنساری اور اخلاق کا پیکر نہیں ہوگا۔ وہ اچھے دنوں میں دوستوں اور رشتے داروں کو اپنے قریب نہ لا سکے۔ تو جان لے آخری وقت ایسا ہی گزر ے گا جیسے عبداللہ حسین کا گزرا۔ پاکستان میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے جفادری پاپولر اور عبقری شخصیات آخری وقت میں قابل رحم حالت میں تھے۔ وہ تنہائی، بیماری، مردم بے زاری اور کسمپرسی میں مبتلا تھے۔ اپنے احباب و متعلقہ اداروں کی بے رخی و بے اعتنائی سے بے بس اور رنجیدہ تھے۔ دو چار افراد کے کاندھوں پر سوار اپنی ابدی آرام گاہ تک پہنچے۔

ایسے مزاج کے لوگ دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا انجام بھی کوئی اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن وہ لوگ جو دلوں کو تسخیر کرنے کا فن جانتے تھے۔ جو لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ ان کا احوال قدرے مختلف ہے۔ وہ زندگی میں لوگوں میں محبت پیار اور آسانیاں بانٹتے تھے۔ دوسروں کا دکھ درد اپنا سمجھتے تھے۔ سچی نیت اور سچے جذبوں کے بشر دوست تھے۔ انہیں زندگی میں بھی احترام، توقیر اور مداحوں کا پیار ملا۔ مرنے کے بعد بھی وہ ہمیشہ زندہ رہے اور زندہ ہیں۔

ایک بات جو کہ ہم سب جانتے ہیں۔ کہ معاشرے میں کسی کی عظمت اس کی پزیرائی اور بلند قامت کو اس کے ہم عصر ذرا کم ہی تسلیم کرتے ہیں۔ بات اگر معاصرانہ چشمک تک بھی رہے تو قابل قبول ہے۔ مگر اکثریت تو عدم برداشت کا شکار ہو کے بھرے چوک میں ایک دوسرے کے گندے پوتڑے دھونے لگتے ہیں۔ بقول شخصے ٰ انسان کی اوقات دیکھنی ہو تو قبرستان چلے جاؤ۔ سوال ہے کہ ہم قراقرم کو کوہ سلیمان کیوں ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں؟ رقابت اور رنجش کیوں لئے پھرتے ہیں؟ اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ ہم یا تو نام نہاد شاعر ادیب یا سیاست دان ہیں۔ یا ہم پھر ریت کی دیوار پر کھڑے ہیں۔ ایسا کام اور سوچ اوریجنل تخلیق کار ہرگز نہیں کرتے۔ اگر کرتے ہیں۔ تو جان لیں کہ وہ اور یجنل نہیں اتائی تخلیق کار ہیں۔

جناب صفدر ہمدانی نے اپنے ایک کالم میں کیا خوب کہا کہ نام نہاد شاعروں ادیبوں کی غالب اکثریت منافق ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”ہم کسی کی تعریف کے لیے بس اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ادب کا شعبہ خاص طور پر ایسے منافقوں کی اکثریت کا شعبہ ہے۔ جہاں ہر شاعر غالب اور میر کا باپ ہے۔ فہمیدہ ریاض ایک دبنگ خاتون تھی۔ وہ ایک عورت جو ضیاء الحق جیسے آمر مطلق سے ٹکرا جائے۔ اور جلا وطنی کے سات برس بھارت میں گزار دے۔ لیکن آمریت کے سامنے سر نہ جھکائے۔ جو اپنی تخلیقات میں عورت کی وہ بات کرے۔ جو اس معاشرے کی عورت خود اپنے بارے میں کرنے سے گھبرائے۔ وہ عورت جو انسانی اقدار اور انسانی حقوق کی بات کرے۔ اس کی موت پر سب سے زیاد ہ سرد مہری اسی کے قلم قبیلے نے ظاہر کی۔ “

نجمہ منظور اپنی بڑی بہن فہمیدہ ریاض کی قبر پر

آہیے اس حوالے سے پاکستان سمیت چند ممالک کے رویے دیکھتے ہیں۔

کالم نگار علی اکبر ناطق صاحب نے ایک جگہ اسی دبنگ عورت اور مصنفہ بارے لکھا کہ ”یا اللہ مجھے لاہو ر میں موت نہ دینا“ رات فہمیدہ ریاض لاہور میں وفات پا گئیں۔ آج لاہو ر عسکری 1 میں 4 بجے ان کا جنازہ تھا۔ جنازے میں کل ادیبوں اور شاعروں کی تعداد 3 تھی۔ ایک میں خود دوسرا امجد اسلام امجد اور تیسرے تحسین فراقی صاحب باقی چالیس یا پچاس لوگ وہاں کی مسجد کے نمازی تھے۔ ”

علی اکبر ناطق مزید لکھتے ہیں کہ ”خدا کی قسم لاہور کے ادیبوں اور شاعروں کی 99 فیصد تعداد منافق اور احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ کم از کم اسلام آباد کے ادیب شاعر لاہور کے شاعروں سے کہیں زیادہ اہل ظرف، غیرت مند، با وقار، وضع دار اور وفا دار ہیں۔ کہ وہاں کسی جنازے پر اس قدر مفلسی نظر نہیں آتی۔ چاہے ادیب کسی بھی پائے کا ہو اور پھر یہ تو فہمیدہ ریاض تھی۔ “

محسن نقوی کیا خوبصورت شاعر او ر عمدہ انسان تھے۔ کمال تخیل اور بلندی فکر آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ بند قبا، برگ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوع اشک، رخت ِ شب، خیمہ جاں، موج ادراک جیسے خوبصورت کتابیں ہمارے سامنے آئیں۔ ان کا زندہ جاوید شعر

عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق

میر ا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

ان کے جنازے پر بھی بہت کم لوگ آئے۔ جس طرح ان کا ادبی قد کاٹھ تھا اک عالم ان کی شاعری اور خطابت کا دیوانہ تھا۔ وہ لوگ بھی بس وضو کرتے رہے۔ حتیٰ کہ الحمر ا لاہور میں ان کے تعزیتی ریفرنس میں بھی سنا ہے کہ تیس سے چالیس لوگ تھے۔ صدارت حنیف رامے اور مہمان خصوصی احمد ندیم قاسمی اور مضمون پڑھنے والے صفدر ہمدانی اور فیروز کنول تھے۔

ایک خبر کے مطابق تبلیغی جماعت کے سابق امیر حاجی عبدلوہاب کو آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی پاکستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں لوگ رائے ونڈ پہنچے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد جنازے میں شریک ہوئے۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی۔ کہ مرنے کے بعد انہیں قائد اعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ وفات کے بعد ان کا جسد خاکی ایک کھلی وین پر لایا گیا۔ تمام حکومتی اور سیاسی لیڈرز، علمائے کرام عام و خاص لوگ سر جھکائے آہستہ آہستہ درود شریف کا ورد اور سورت یاسین کی تلاوت کرتے چلے آ رہے تھے۔ میت کا جلوس جس جگہ سے گزرتا عورتیں چھتوں سے گلاب کے پھول اور پتیاں نچھاور کرتیں۔ جلوس جوں جوں آگے بڑھتا رہا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب جنازہ پولو گراؤنڈ پہنچا تو وہاں پہلے سے ہزاروں افراد انتظار میں تھے۔ نماز جنازہ کے بعد مزار قائد کی جانب سفر دوبارہ شروع ہوا تو لوگوں کی تعداد لگ بھگ چار سے پانچ لاکھ ہو چکی تھی۔ عورتوں مردوں اور بچوں کا ایک سیلاب تھا جو جنازہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔

عبدالستار ایدھی جیسی انسان دوست شخصیت کی وفات پاکستان کا ایک بڑا قومی نقصان تھا۔ ایدھی صاحب کو پورے قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ صدر مملکت، چیف آف آرمی سٹاف، وزرائے اعلیٰ، گورنرز وزراء کرام نے جنازہ میں شرکت کی۔ تابوت کو قومی پرچم میں لپیٹا گیا تھا۔ گاررڈ آف آنر پیش کیا گیا اور سلامی دی گئی، پھولوں کی چادریں تابوت پر رکھی گئیں، حفاظتی اداروں کی سیکورٹی میں انہیں ایدھی ویلج لایا گیا اور پوری شان و شوکت سے انہیں دفنایا گیا۔

لیکن جنازہ میں جو توقع تھی اتنے لوگ شریک نہ ہو سکے۔ کیونکہ اس دن نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے۔ صدر سے لے کر آرمی چیف اور تمام اعلیٰ سول و فوجی حکام کی وجہ سے وہ لوگ جن سے ایدھی صاحب پیار کرتے تھے۔ وہ غریب اور مفلس لوگ جو ایدھی کی آخری رسومات میں گھروں سے نکل پڑے تھے۔ انہیں راستوں میں ہی روک لیا گیا۔ وی آئی پی موومنٹ کے سبب سارے شہر کی ٹریفک روک دی گئی تھی۔ اگر سرکاری پروٹوکول کے بغیر ا یدھی صاحب کا جنازہ ہوتا تو لاکھوں لوگ اشکبار آنکھوں سے شریک ہوتے یوں اس دن کراچی کی تاریخ کا ایک اور بڑا جنازہ ریکارڈ میں درج نہ ہو سکا۔

پنجاب کے گورنر سلیمان تاثیر کے قتل کے بعد ان کے نماز جنازہ کا احوال بھی سنئیے۔ اس روز پانچ سو سے زائد مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہ نماز جنازہ پڑھائیں گے اور نہ افسوس کریں گے۔ کمشنر لاہو ر خسرو پرویز نے بادشاہی مسجد کے خطیب کو فون کیا کہ وہ کل ایک بجے سلیمان تاثیر کا نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ خطیب صاحب کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے معذرت کی کہ وہ لاہور سے باہر ہیں اور کل تک کسی صورت لاہور نہیں پہنچ سکتے۔

پنجاب حکومت نے پھر داتا دربار کے خطیب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اپنی بیماری کا بہانہ کر کے جان چھڑوائی۔ اس کے بعد گورنر ہاؤس کے اعلیٰ حکام نے گورنر ہاؤس کی مسجد کے خطیب قاری محمد اسماعیل سے رابطہ کیا اور انہیں دھمکی آمیز لہجے میں سلیمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے کا حکم دیا۔ اس مرد قلندر نے اپنا استفعی ٰ ان کے سامنے ڈال دیا اور صاف انکاری ہوا۔ یوں ہر جگہ سے مایوس ہو کے اعلیٰ حکام نے محکمہ اوقاف کے بہت سے علمائے کر ام سے رابطہ کیا۔

لیکن کسی نے حامی نہ بھری بلکہ اکثر نے اپنے موبائل فون تک بند کر ڈالے۔ بلا آخر ایک آزاد خیال مولوی ہاتھ لگ گیا جس نے بہت عجلت میں جنازہ پڑھا۔ ابھی لوگ صفیں باندھتے پھر رہے تھے۔ یہ دنیا کا واحد جنازہ تھا کہ جس کے امام کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ امام کے آگے بھی تین صفیں تھیں۔

اب کچھ بات ہو جائے وطن سے باہر کی۔

گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی لوح میں ہزاروں عہد ساز شخصیات کے نام محفوظ ہیں۔ جنہیں ان کے چاہنے والوں نے بعد از وفات نہ صرف یاد رکھا بلکہ ان کے عہد ساز دور کی طرح ان کے جنازوں کو بھی تاریخ ساز بنا دیا۔ جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا بھی عہد ساز شخصیت میں شمار ہوتے ہیں۔ جن کے جنازہ میں کئی ملین افراد نے شرکت کر کے ان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ بعض عرب مشاہیر کے جنازے بلا شبہ کئی لاکھ افراد پر مشتمل تھے۔ اور مشہور ہوئے۔ اور کچھ کے حامی اور مداح ”بوجوہ“ شریک نہ ہو سکے او ر گنتی کے چند افراد نے راز داری سے انہیں منوں مٹی تلے جا سلایا۔

مصر کے اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا جیسی ہستی کی میت کو کندھا دینے اس کی حاملہ بیوہ اور چند بیٹیاں اور اسی سالہ بوڑھا والد تھا۔

جمال عبدالناصر کی وفات پر تین روز تک جاری ان کی رسومات پر کم از کم چالیس لاکھ افراد شریک ہوئے۔

قد آور لوگوں کے چھوٹے جنازوں میں سے مصری ادیب اور مصنف مصطفی لطفی المنفلوطی، حسن البنا اور سابق موسیقار سید درویش کے جنازے عرب تاریخ کے چھوٹے جنازے تھے۔ مصطفی منفلوطی کی وفات پر اس کے گھر ہزاروں افراد جمع تھے۔ عین اسی وقت معروف سیاسی رہنما سعد زغلول پر ایک قاتلانہ حملہ کیا ہوا سارے ماتم کدہ اور سوگ میں ڈوبے لوگ وہاں سے قاتلانہ حملہ والی جگہ پر بھاگ نکلے۔ یوں اپنے پسندیدہ ادیب کا غم بھول کے سبھی اس زخمی سیاسی رہنما کے گھر جا پہنچے اور تین چار افراد باقی بچے جنہوں نے میت کو کاندھا دیا اور قبرستان تک پہنچایا۔ ایک سال قبل بھی نامور موسیقار سید درویش کا جنازہ تیار تھا کہ خبر ملی کہ ایک مقبول سیاسی رہنما طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپس پہنچا ہے۔ لوگ اپنے لیڈر کی وطن واپسی کی خوشی میں موسیقار کا جنازہ وہیں چھوڑ کے اپنے محبوب لیڈر کے استقبال کے لیے اسکندریہ چل پڑے۔

محمد حنیف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ”جوانی میں جنازوں پر جانے سے وحشت ہوتی تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک نماز، ایک معانقہ اور ایک دعا۔ اب کسی جنازہ پر جانا ایسا ہی لگتا ہے جیسے بچے کو اس کے دوست کی برتھ ڈے پارٹی پر لے کر جانا۔ وہاں پر دوسرے بچوں کے والدین سے ہلکی پھلکی گپ شپ کرنا اور واپس آ جانا۔ بلکہ اب تو یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ ہمارے جنازے بڑے سہل ہیں۔ اور جدید زمانوں کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ جتنا ٹائم ایک سگریٹ پینے میں لگتا ہے، اتنی دیر میں ہم نماز جنازہ پڑھ کے سلام پھیر لیتے ہیں۔ “

اب ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمارا جنازہ کیسا ہو چھوٹا یا بڑا؟ لیکن فرق اس سے کوئی نہیں پڑتا۔ بس دعا یہ کریں کہ اس وقت سب ہمارے اپنے ہوں جو دل سے عقیدت اور احترام سے کاندھا دیں اور قبر میں اُتار کے ہماری حسین یادوں کے ساتھ گھروں کو واپس جائیں۔

نوٹ: جب یہ تحریر مکمل ہوئی تو کشمیر کا مسئلہ بہت گھمبیر ہو چکا تھا۔ چلتے چلتے ایک لائن جو سوشل میڈیا سے سامنے آئی۔ پیش خدمت ہے۔

” جہاں ایک جنازے کو قبر تک پہنچانے کے لیے کئی جنازوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سر زمین کو کشمیر کہتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).