فیصل مشتاق کے “نازک جذبات” اور کرینہ کپور


فیصل مشتاق سے میری پہلی باضابطہ ملاقات پچھلے سال نومبر میں لاہور ایکسپو بک فیئر میں ہوئی تھی۔ گو یہ ہماری پہلی ملاقات تھی مگر مجھے فیصل کو مزید جاننے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے ہمارا رابطہ صرف سوشل میڈیا کی حد تک تو تھا۔ مگر ہمارے مابین زیادہ بات چیت نہ ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر جس قدر رابطہ ہوا تھا اس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ لڑکا بہت ہی مغرور اور اوور سمارٹ قسم کا ہے۔ تاہم پہلی باقاعدہ ملاقات میں میرے تمام خدشات غلط ثابت ہو گئے۔ میں نے فیصل کو نہایت نرم گفتار اور خوش اخلاق پایا۔

قریب قریب ہم عمر ہونے کی وجہ سے کسی طور یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ ملاقات کے وقت میرے ساتھ میری رائٹر سہلیاں بھی تھیں۔ ہم سب نے موقع کی مناسبت سے چائے پی اور ادبی گفتگو کی۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ فیصل کہانیوں کے ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے ہیں۔ پہلی ملاقات نے مجھ پر نہایت شاندار تاثر چھوڑا۔ میں دل میں فیصل کے لئے اچھے جذبات اور احترام لئے ہوئے اٹھی۔

اتفاق سے ہماری دوسری ملاقات بھی اسی سال فروری میں لگنے والے لاہور ایکسپو بک فیئر میں ہی ہوئی۔ مگر یہ ملاقات میرے لئے غیر معمولی رہی کیونکہ مجھ پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ان چند ماہ کے دوران فیصل نے بہت بڑا دھماکہ کردیا ہے۔

وہ دھماکہ فیصل کا پہلا شعری مجموعہ ”نازک جذبات“ ہے۔ اسی بک فیئر میں وہ کتاب ایک خوبصورت اسٹال پر سجی پڑی تھی اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی تھی۔

اس دن کچھ ایسی مصروفیت رہی کہ نا ہی میں کتاب خرید سکی اور نا ہی فیصل سے میری کتاب کے حوالہ سے کوئی تفصیلی بات ہو سکی۔ میں نے بس فیصل کو کتاب کی مبارک باد دی۔

مگر مجھے امید تھی کہ یہ کتاب اپنے نام کی طرح شاعر و صاحب کتاب کے نازک جذبات کی ضرور ترجمان ہوگی۔ گھر واپسی کے دوران ایک کسک سے دل میں رہی کہ یہ کتاب لینی چاہیے تھی۔

چند روز بعد مجھے ڈاک سے ایک کتاب موصول ہوئی کھول کر دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی کیونکہ ڈاک کے ذریعے فیصل نے اپنی کتاب مجھے بطور تحفہ ارسال کی تھی۔ میرے نام اپنے دستخط کے ساتھ ایک شاندار پیغام بھی لکھ بھیجا تھا۔ میں اس اعزاز و احترام کو پا کر دلی طور پر مسرور تھی۔

سروق بہت دلفریب اور منفرد تھا کیونکہ فیصل کی پسندیدہ اداکارہ بلکہ اس کا کرش کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا کی تصویر ٹائٹل پر سجی دلوں کی دھڑکنیں تیز کرنے کا باعث بن رہی تھی اور وہ تصویر بالی وڈ کی بیبو اور کوئین ”کرینہ کپور خان“ کی تھی۔ جو فیصل کی آئیڈل ہیں۔

کتاب کے اس اچھوتے ٹائٹل اور فیصل کی ہمت کی میں داد دیے بنا نہ رہ سکی کہ کس جرات مندی سے انہوں نے کسی کی پروا نہ کرتے ہوے ٹائٹل پر اپنے دل کی ملکہ کی تصویر دی تھی۔ ملکہ بھی وہ جس کی تصویر میں کچھ لٹیں اس کے چہرے پر آکر اسے مذید خوبصورت بنا رہی تھیں۔

تحفے تو تمام ہی قیمتی ہوتے ہیں۔ مگر جن تحفوں کا حق کسی طرح ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں کتاب سرفہرست ہے۔ یہ ایسا خوب صورت و نایاب تحفہ ہوتی ہے جس کا حق انسان پڑھ کر تبھی ادا کر سکتا ہے جب اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرے۔

اس بیش قیمت تحفے اور عزت دینے پر میں نے فیصل کا شکریہ ادا کیا۔ شاعرانہ مزاج نا رکھنے کے باوجود ساری کتاب ایک دن میں ہیپڑھ ڈالی۔

جس کے ساتھ ہی مجھ پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ فیصل اچھے سٹوری رائٹر ہی نہیں اچھے اور منجھے ہوے شاعر بھی ہیں ان کی کچھ غزلیں تو اتنی پختہ اور شاندار تھیں کہ مجھے ایسا لگنے لگا گویا ہوبہو میرے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے بلاشبہ وہی شاعر کامیاب ہے جسے پڑھتے ہوے آپ کو اپنے محسوسات کا احساس ہونے لگے۔ فیصل کی یہ نظم میرے دل کے سب سے نزدیک ہے۔ کیونکہ اس نظم میں میں نے بارہا خود کو تلاش کیا۔

زندگی کے اتار چڑھاؤ میں
دھوپ اور چھاؤں میں
مصیبتوں کے گھاؤ میں
اب میں گھبراتا نہیں
ترس کسی پر کھاتا نہیں
جذبات سے روندا گیا ہوں
محبت سے ٹھکرایا گیا ہوں
بس!
اسی لیے۔
لہجے میں کرخت ہوں
میں پتھر جیسا سخت ہوں

فیصل کی شاعری میں زیادہ محبت، وصل اور ہجر کے رنگ پاے جاتے ہیں جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی واضح ہے۔ فیصل مشتاق افسانہ نگار کالم نگار کہانی کار اور شاعر ہیں جس کا ایک ثبوت ان کی یہ شاندار شاعری سے مزین کتاب نازک جذبات ہے جو بلاشبہ اردو شاعری اور شاعری کا ذوق رکھنے والوں کیلے اچھا اضافہ ہے۔ یہ کتاب لطیف جذبوں کے ساتھ انسانی زندگی میں پیش آنے والی تلخلیوں کا بھی ذکر کرتی ہے۔

یہ کتاب اچھے شاعر کا اختتام نہیں بلکہ نہایت دلفریب آغاز ہے۔ جہاں پڑھنے والے کو زندگی کو رمق ملتی ہے۔

آنے والوں دنوں میں فیصل کی شاعری کے کئی رنگ ابھی سامنے آنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت جلد ہمیں فیصل کے قلم سے کہانیوں کی کتاب بھی پڑھنے کو ملے گی۔ جس کا مجھے شدت سے انتظار ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ پاک انہیں مزید ترقیاں اور کامیابیاں دے آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).