370شق کا خاتمہ:لداخ کے عوام اور چین کا ردعمل


لداخ

انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی ریاست کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد لداخ کی عوام جہاں ایک طرف خوش ہیں تو وہیں وہ حکومت سے لداخ کو قانون ساز اسمبلی کی طاقت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انڈین حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے پر چین نے بھی اعتراض اٹھایا ہے جس کو انڈیا نے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر رد کر دیا ہے۔

چین اور انڈیا کا لداخ میں سرحدی تنازع بہت پرانا ہے اور اس بارے میں دونوں حکومتوں کے درمیان اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: ’ایسا لگتا ہے کہ کچھ عرصے بعد لاوا پھٹے گا‘

کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی: پاکستان اب کیا کر سکتا ہے؟

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

کیا آرٹیکل 370 کا خاتمہ چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

لداخ کی عوام حکومتی فیصلے پر کیا رائے رکھتی ہے؟

لداخ کی ایک باسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے لداخ کو یونین ٹریٹری کی حیثیت ملنے پر لداخ کی عوام بہت خوش ہے۔ ہم بہت عرصے سے اس بارے میں جدوجہد کرتے آئے ہیں اور اب جا کر ہمیں یہ حق ملا ہے۔ لیکن ابھی یونین ٹریٹری کی حیثیت ہمیں مقننہ کے اختیار کے بغیر ملی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں ہمیں ایک الگ قانون ساز اسمبلی بھی ملے۔

انڈیا

لداخ کے ایک نوجوان نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج مبارک دن ہے کیونکہ آج ہمیں مرکز کے زیر انتظام خطہ بنا کر جموں و کشمیر سے الگ کر دیا گیا ہے۔

لداخ میں ایک طالبعلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور یونین ٹریٹری کی حیثیت دینا لداخ کے طالبعلموں کے حق میں نہیں ہے کیونکہ آج بھی لداخ کے تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم وہ نہیں ہے جو ملک کے دیگر حصوں میں ہے۔

انڈیا

لداخ میں مقیم ایک بزرگ شہری کا انڈین حکومت کے فیصلے پر کہنا تھا کہ انڈیا کی عوام کے لیے یہ تاریخی دن اور خوشی کا موقع ہے۔ کیونکہ جس فیصلے کا اعلان انڈیا کے وزیر داخلہ نے کیا ہے وہ نہ صرف لداخ اور جموں کشمیر کی عوام بلکہ پورے انڈیا کے حق میں ہونا ضروری تھا۔

جبکہ لداخ کے ایک باسی نے مودی حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے کو واپس لیں اور لداخ کو قانون ساز اسمبلی کے ساتھ یونین ٹریٹری کا حق دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ لداخ کی ثقافتی اور معاشی اعتبار سے منفرد حیثیت کا تحفظ کرنے کے لیے ہمیں قانونی طاقت کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کی طاقت سے ہم لداخ کے ترقیاتی ڈھانچے اور معاملات کی پالیسی کو ہم خود مرتب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے سے یہاں کے باسیوں میں ایک خوف پیدا ہو گیا ہے کہ اب کوئی بھی یہاں جائیداد خرید سکتا ہے اور کاروبار کر سکتا ہے۔ لہذا یہاں کی عوام کو اس ضمن میں فیصلہ سازی کی طاقت دی جائے۔

چین کا اعتراض کیا ہے؟

چین نے انڈیا کے زیر انتطام جموں و کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے انڈیا کے قدم پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ بنانے کے فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے ۔

چین کی وزارت خارجہ نے انڈین آئین کی شق 370 ختم کیے جانے اور جموں و کشمیر اور لداخ کو دو مرکزی خطوں میں تقسیم کیے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور انڈیا کو ایسے ‘یکطرفہ فیصلے’ کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن سے خطے میں کشیدگی پیدا ہو۔

بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چون ینگ نے کہا کہ لداخ کو ایک الگ مرکزی خطہ بنائے جانے پرچین کو اعتراض ہے ۔ ینگ کا کہنا تھا کہ ‘چین کو مغربی سکیٹر میں چین کے علاقے کو انڈیا کے انتظامی دائرہ اختیار میں شامل کرنے پر ہمیشہ اعتراض ہے ۔’

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ چین کے اس مستقل موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ ‘حال ہی میں انڈیا نے اپنے داخلی قانون میں یکطرفہ تبدیلی کر کے چین کے اقتدار اعلی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح کا قدم بالکل ناقابل قبول ہے ۔’

چین نے کہا کہ انڈیا کو یکطرفہ طور پر متنازعہ سرحدی خطے کی موجودہ صورتحال میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہیے جو کشیدگی کو ہوا دے۔

آرٹیکل 370 ختم کیے جانے پر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے چین کا موقف بہت واضح ہے۔ ‘ انڈیا اور پاکستان کو خطے کو کشیدگی سے بچانے کے لیے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے چاہئیں ۔’

انڈیا نے چین کے اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ‘انڈیا دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتا اور وہ دوسرے ملکوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیں گے۔’

رویش کمار نے کہا کہ ‘لداخ کو ایک الگ مرکزی خطہ بنایا جانا انڈیا کے اپنے خطے کا اندرونی معاملہ ہے۔ جہاں تک انڈیا، چین سرحد کا سوال ہے تو دونوں ملکوں نے اپنے سرحدی تنازعات منصفانہ، مناسب اور متفقہ طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے اتفاق کیا ہے جس کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔’

لداخ

انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع ہے کیا؟

انڈیا اور چین کے درمیان 3488 کلومیٹرلمبی سرحد تین خطوں میں منقسم ہے۔مشرقی سیکٹر ، وسطی سیکٹر اور مغربی سیکٹر۔ مغربی سیکٹر میں جہاں لداخ واقع ہے یہ تنازع جانسن لائن پر ہے جو انگریز دور میں سنہ 1860 میں وضع کی گئی تھی۔ انڈیا اس لائن کو تسلیم کرتا ہے لیکن چین اسے سرحد نہیں تسلیم کرتا اور وہ لداخ کے موجودہ انڈین خطے کے کئی علاقوں کا دعویدار ہے۔

پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 کی قرارداد پر لوک سبھا میں جواب دیتے ہوئے انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں پاکستان کے زیر انتظام کمشیر اور اکسائی چن بھی شامل ہیں۔ ‘ میں جب جموں و کشمیر کا ذکر کرتاہوں تو اس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور اکسائی چن کا خطہ بھی شامل ہے۔ اکسائی چن سمیت لداخ اب مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہوگا۔

اکسائی چن کا علاقہ چین کے پاس ہے۔ حالیہ برسوں میں چین کے فوجی کنٹرول لائن عبور کر کے کئی بارانڈیا کے زیر انتظام علاقے میں آئے ہیں۔ کئی مرتبہ چین کے ہیلی کاپٹر بھی انڈین فضائی حدود میں پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع پر ایک درجن سے زائد بار مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن مشرقی اور مغربی سیکٹر میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

اس تنازع کا اب تک ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کنٹرول لائن مکمل طور پر پرامن ہے اور دونوں فوجوں کے درمیان کئی عشروں سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا ہے۔

بعض چینی دانشوروں کا خیال ہے کہ کشمیر کو دو حِصوں میں تقسیم کرنے کا انڈیا کا مقصد کشمیر اور چین کے ساتھ پیچیدہ سرحدی تنازعے کوایک دوسرے سے علیحدہ کرنا اور کشمیر کے مسئلے کو یکطرفہ طور پر حل کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp