کراچی کی کچرا سیاست ۔۔۔۔ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی نا اہلی


کراچی کی سیاست میں کچرا کی کہانی سالوں پرانی ہے جو ہمیشہ فوٹو سیشن سے شروع ہو کے بے نتیجہ ہی ختم ہو جاتی ہے اور کراچی کا کچرا جوں کا توں شہریوں کا منہ چڑھا رہا ہوتا ہے۔ کراچی کے کچرے پر سیاست کا آغار کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے نوے کی دہائی میں شروع کیا۔ اس تنظیم کے قائد آئے دن جھاڑو اٹھاکر فوٹو سیشن کرواتے نظر آئے جس سے اس جماعت کو پذیرائی بھی ملی اور پھر ایک دن آیا جب جھاڑو والے بابا اربوں روپے پر جھاڑو پھیر کر لندن مقیم ہو گئے۔

کراچی کے کچرے نے جہاں کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہاں اس کچرے نے کئی لوگوں کو ارب پتی بنا دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 12 ہزار لوگ کچرے سے روزی کماتے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں کراچی کا کچرا صاف کرنے کے حوالے سے 8 مرتبہ مہم چلائی گئی لیکن کچرے کے پہاڑ کراچی میں جوں کے توں موجود ہیں۔ مارچ دوہزار 2016 میں ایم کیوایم نے اپنے ماضی کو دہراتے ہوے 30 روزہ صفائی مہم کا اعلان کیا تاہم ایم کیوایم رہنماؤں کی گرفتاری کی وجہ سے صفائی مہم روک دی گئی۔

اگست 2016 میں کچھ این جی اوز نے ”کراچی صاف کرو“ کے نعرے کے تحت مہم شروع کی جس میں جنید جمشید مرحوم بھی شریک تھے۔ مہم شروع ہوئی، فوٹو سیشن ہوئے، فنڈز اور چندہ بھی ملا لیکن کچرا اپنی جگہ سے نہ ہل سکا۔ دسمبر 2016 میں میئر کراچی نے 100 روزہ صفائی مہم کا آغاز کیا جناب نے بڑے جھاڑو لہرائے، بڑے فوٹو سیشن ہوئے مگر شہر میں کچرا کلچر میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھا گیا۔ میئر کراچی نے دعوی کیا تھا کہ شہر کو 100 روز میں صاف کر دیں گے لیکن بڑے بڑے دعوے ہوا میں ہی اڑ گئے اور اب بھی جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔

میئر کراچی وسیم اختر عملی طور پر کام کرنے کی بجائے آج بھی اختیارات کا رونا رو رہے ہیں اور سندھ حکومت کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ مارچ 2017 میں کراچی کے تین اضلاع میں کاروباری ادارے (بحریہ ٹاون) نے صفائی مہم شروع کی بعد میں بحریہ ٹاؤن اور میونسپل کارپوریشن کے درمیان رضاکارانہ طور پر کچرا اٹھانے کی مہم کا معاہدہ کیا گیا اور میئر کراچی کو 10 ارب روپے بھی دیے گئے لیکن 10 ارب روپے ڈکارنے کا بعد بھی کچرا کراچی کے گلی کوچوں میں دندناتا پھر پھر رہا ہے۔

اکتوبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے ملک گیر صفائی کے تحت کراچی میں بھی ”جھاڑو اٹھاؤ“ مہم چلائی۔ اس مہم کی نگرانی گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کی۔ جھاڑو اٹھے تصویریں بنیں کروڑوں روپے خرچ بھی ہوئے لیکن کچرا جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ دسمبر 2018 میں تین روزہ صفائی مہم چلائی گئی اس مہم کو کچرے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ”جھاڑو اٹھاؤ“ مہم میں گورنر عمران اسماعیل کی شکست کے بعد پی ٹی آئی نے مارچ 2019 میں ایک مرتبہ پھر ”چکمتا دمکتا کراچی“ کے نعرے تلے کراچی کے کچرے کو للکارا لیکن اس بار بھی جیت کچرے کی ہوئی، بس اسی مہم کے نام پر کچھ لوگوں کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہوا۔

رواں سال 26 فروری کو محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے کراچی سمیت سندھ بھر میں طے شدہ مقامات کے علاوہ کچرا پھینکنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا تھا کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں میں عوامی مقامات اور سڑکوں پر کچرا پھینکنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ داخلہ سندھ نے سپریم کورٹ واٹر کمیشن کے نوٹس پر عوامی مقامات، بازاروں، سڑکوں اور رفاحی پلاٹوں پر کچرا پھینکنے پر دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا لیکن محکمہ داخلہ کے یہ احکامات بھی سیاسی شعبدہ بازی ثابت ہوئے۔ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں شاہراہ فیصل سمیت پورے شہر میں کچرا پھیلاتی رہیں اور دفعہ 144 سوتا رہا جو آج تک خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ گزشتہ ماہ جولائی میں کراچی کے کچرے پر سخت برہم ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سختی سے ہدایات جاری کرتے ہوئے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا حکم دیا۔ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے کچرا اٹھانے کی مہم شروع کی۔ بڑی بھاگ دوڑ ہوئی، کروڑں روپے خرچ ہوئے لیکن کراچی آج بھی کچرا کچرا ہے۔ پچھلے 3 سالوں کے دوران کراچی سے کچرا اٹھانے پر اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں لیکن نتیجہ وہی صفر سے شروع ہوکر صفر ہی نکلتا ہے۔

اس وقت جہاں حکومت اور کچرا اٹھانے والے ادارے یہاں تک کہ چینی کمپنی بھی کراچی کے کچرے کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہیں وہاں کراچی کی صفائی سے غیر متعلقہ وفاقی وزارت رکھنے والے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے کراچی کے کچرے کو للکارا ہے۔ علی زیدی نے صوبائی حکومت کو دو ہفتوں میں کراچی کے 6 اضلاع سے کچرا صاف کرکے دکھانے کا چیلنج دے رکھا ہے۔ اس مہم کی تھیم ”اب ہوگا صاف کراچی“ رکھی گئی ہے۔ اس مہم کے پہلے مرحلے میں 14 اگست تک شہر کے 32 بڑے نالے صاف کیے جائیں گے، بند نالوں کو کھولا جائے گا اور ایف ڈبلیو او کراچی صفائی مہم کی نگرانی کرے گا، کراچی کے 38 نالے سمندر میں گرتے ہیں، 38 میں سے 13 نالے بڑے ہیں وہ بھی بند ہیں۔

ONLINE PHOTO by Sabir Mazhar

علی زیدی کے جوش اور جذبے کو دیکھتے ہوئے شوبز ستارے بھی صفائی مہم کی حمایت کے لئے میدان میں آگئے ہیں۔ حریم فاروق نے کہا کہ کراچی کے شہری اپنا شہر صاف کرنے کی مہم میں بھرپور شرکت کریں جبکہ سب آگے آئیں، اور پاکستان کا ہر شہر صاف کریں۔ رمشہ خان، اُشنا شاہ اور جنید خان بھی پیچھے نہ رہ سکے اور کراچی والوں سے صفائی مہم کا حصہ بننے اور اسے کامیاب بنانے کی اپیل کردی ہے۔ وفاقی وزیر بحری امور سیّد علی حیدر زیدی نے فنڈز کی کمی کی باعث کراچی صفائی مہم کے لئے عطیہ کے حوالہ سے بینک اکاؤنٹ نمبر کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

مخیر حضرات اور عوام اکاؤنٹ ٹائٹل ایف ڈبلیو اور کلین کراچی، اکاؤنٹ نمبر 0786۔ 7918163603، آئی بی اے این نمبر PK 41 HABB 0007 8679 1816 3603، حبیب بینک لمیٹڈ کی کسی بھی برانچ میں اپنے عطیات جمع کرا کر کراچی صفائی مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں 5 بڑے اور 6 فیڈر نالوں کی صفائی کے لئے 175 کروڑ روپے کی فوری ضرورت ہے۔

اگر کراچی کی کچرا سیاست کے دوسرے پہلو پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دو کروڑ نفوس کی آبادی کے شہر کراچی میں 14 ہزار ٹن یومیہ کچرا پیدا ہوتا ہے 10 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جا رہا ہے جبکہ 4 ہزار ٹن کچرا سڑکو ں پر ہی رہ جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سرکاری افسران سمیت کراچی 12 ہزار لوگ اس کچرے سے روزی کماتے ہیں۔ اس کچرے کو اٹھانے اور اسے ’ری سائیکل‘ کرنے کا کوئی موثر نظام دستیاب نہیں۔ 3 سال گزرنے کے باوجود سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کچرا اٹھانے کے کام کو کراچی میں مکمل طور پر انجام نہیں دے سکا اگرچہ مذکورہ ادارہ صوبائی سطح پر تشکیل دیا گیا تھا جس کی ذمے داریوں میں نہ صرف صوبے بھر سے کچرا اٹھانا اور اسے ٹھکانے لگانا شامل تھا بلکہ اسے کچرے سے منسلک کاروبار کے مواقع پیدا کرنا، اس سے متعلق ٹیکسز کی وصولی، کچرے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا آغاز اور اس طرح کے دیگر فرائض انجام دینا تھا، اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ عملدرآمد نہ ہونے کا ایک سبب ادارے کو درپیش سیاسی اور انتظامی نوعیت کے مسائل بتایا جاتا ہے۔

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے لئے، کراچی کا کچرا اٹھانے کے کام کے لئے، سالانہ 4 ارب روپے مختص کیے جاتے ہیں جن میں سے بورڈ 2 ارب روپے سالانہ خرچ کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بورڈ کو جاری ہونے والے 2 ارب روپے کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا وجود 2014 میں سندھ اسمبلی سے منظور کردہ قانون کے تحت قیام عمل میں لایا گیا تاہم اس ادارے نے اپنے کام کا باضابطہ آغاز 2016 میں اس وقت کیا جب ایک چینی کمپنی کے ساتھ کراچی میں کچرا اٹھانے کے لیے معاہدہ کیا گیا۔ ابتدائی طور پر کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کا کام کراچی کے 2 اضلاع سے شروع کیا گیا جن میں ضلع شرقی اور ضلع جنوبی شامل تھے تاہم بعد میں ضلع ملیر اور ضلع غربی کو بھی نیٹ ورک میں شامل کرلیا گیا۔

حکومت سندھ اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے درمیان اختیارات کی جنگ نے بھی اس ادارے کا کام متاثر کیا ہے۔ 2017 میں کراچی کے موجودہ میئر وسیم اختر نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے قیام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کی استدعا کی۔ واضح رہے کہ سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے قانون کے تحت مذکورہ ادارہ وزیراعلیٰ کی سربراہی میں کام کرے گا جبکہ میئر کراچی اس کے ایکس آفیشو اراکین میں شامل ہوں گے۔

سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کو درپیش رکاوٹوں میں وفاقی حکومت کے زیر انتظا م ادارے بھی شامل ہیں جن میں کراچی میں واقع کنٹومنٹ کے علاقے، کراچی پورٹ ٹرسٹ، سول ایوی ایشن اور اس طرح کے دیگر ادارے شامل ہیں۔ کراچی کے کئی علاقے مذکورہ وفاقی اداروں کے زیر انتظام ہیں، ان علاقوں میں سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کا عمل دخل نہیں ہے کیونکہ اس کا دائرہ اختیار صرف بلدیاتی اداروں یعنی ضلعی میونسپل کارپوریشنز کی حدود میں آنے والے علاقوں تک محدود ہے۔

سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ نے کراچی میں کچرے سے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔ کراچی میں کچرے سے 600 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ شروع کیا جاسکتا ہے لیکن وفاقی حکومت نے صرف 50 میگا واٹ کا منصوبہ شروع کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ابھی فائلوں کی حد تک محدود ہے بالکل اسی طرح جس طرح بھینس کالونی کے گوبر سے بایو گیس اور بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ فائلوں میں پڑا دم توڑ رہا ہے۔

کراچی کے کچرے کے ہاتھوں شکست خوردہ اداروں کی شکست کے اسباب جاننے کی کوشش کی تو نا اہلی کے ساتھ ساتھ کرپشن کا بھیانک پہلو بھی سامنے آیا جس میں سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بو رڈ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کچرا اٹھا نے کے حوا لے سے کر پشن میں ملوث پائے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ کچرے کی لینڈفل سائٹ پر وزن کے حساب سے ادائیگی ہوتی ہے لیکن کچرے میں مٹی اورکیچڑ ڈال کر اس کا وزن بڑھا دیا جا تا ہے جس سے وزن میں اضا فہ ہو جا تا ہے۔

کراچی میں 8 گا ربیج ٹرانسفر اسٹیشن ہیں جہا ں سے کچرا لینڈ فل سا ئٹ لے جا یا جا تا ہے اور پھر کچرے کا وزن کر کے ادائیگی کی جا تی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پرائیو یٹ کمپنی اگر 20 ٹن کچرا لینڈ فل سائڈ پر لے کر جا تی ہے تو 7 ہز ار روپے وصول کرتی ہے جبکہ چین کی کمپنی 5 ٹن کچرا اٹھا تی ہے تو 17 سے 18 ہز ار رو پے وصول کرتی ہے۔ کچرے کے وزن میں غیر قانونی طو ر پر اضافہ کیا جا تا ہے خاص طور رات کے وقت وزن زیا دہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

چین کی 2 کمپنیوں کو 4 اضلا ع کا کچرا اٹھا نے اور ٹھکانے لگانا کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ چین کی کمپنیوں نے 2 سال گزرنے کے باوجود اب تک گھروں سے کچرا اٹھانے کا سلسلہ شروع نہیں کیا جبکہ بورڈ نے کچرا اٹھانے میں کرپشن اور ناکامی پر چینی کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کی کوشش کی تو بیچ میں اہم سیاسی اور انتظامی شخصیات کود پڑیں۔ کر اچی میں مجموعی طور پر کچرا اٹھانے والی 650 گاڑیاں ہیں جس میں ضلع شرقی اور جنو بی میں 200 گاڑیاں پرائیوٹ کام کررہی ہیں۔ ضلع غربی اور ملیر میں 100 گاڑیاں پرائیوٹ ہیں با قی تمام سرکاری گاڑیاں کچرا اٹھارہی ہیں۔ ضلع کو رنگی اور وسطی میں بھی کچرا اٹھا نے کے نام پر بڑے پیمانے کی کرپشن کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ سرکا ری ریٹ لوکل ٹھیکیدار کے لیے 340 فی ٹن ہے جبکہ چین کی کمپنیاں 19 اور 29 ڈالر میں فی ٹن کچرا اٹھا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).