ہماری کالام وادی میں پھیلی گندگی


قدرت نے بالخصوص پاکستان اور بالعموم پوری دنیا کو حُسن سے نوازا ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں بالکل خالص حُسن موجود ہے جس کی سوشل میڈیا اور مختلف کے ذرائع سے ہمیں خبر ہوئی۔ دنیا میں بعض مقامات حد سے زیادہ حسین ہیں مگر درحقیقت وہ Artificially بنے ہوئے ہیں۔ سوات کے علاقے کالام پر خدا نے خصوصی مہربانی فرما کر بنایا ہے کیونکہ کالام جیسے علاقے کا مثل دنیا جہاں میں نہیں ملتا اس وجہ سے کالام کو باقی ممالک پر سبقت حاصل ہے۔ آج تک سوات کے علاقے کالام میں ایک انچ کام بھی مصنوعی نہیں ہے ہوا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کالام کو قدرت نے بالخصوص توجہ دے کر بنایا ہے جس کے باعث لاکھوں سیاح حضرات کالام کے درشن کو آتے ہیں۔

باقی سیاحوں کی طرح راقم خود فرصت کو غنیمت جان کر کالام کا رخ کرتا ہے اور کم از کم ایک ہفتہ وہاں رہ کر اپنی تھکن سے نجات حاصل کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح دنیا بھر سے سیاح حضرات آتے ہیں اور فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کالام میں مختلف جگہوں پر ڈیرے جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے امن و سلامتی کا پیغام ملتا ہے کہ کالام ایک امن پسند اور دہشت سے پاک صاف و خوشحال علاقہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن ہوتی ہے وہاں موجود ہر چیز کسی نہ کسی قسم کے مسائل اور مشکلات سے دوچار ضرور ہوتی ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ جہاں سے اٹھتا ہے گندی بھی چھوڑ کر اٹھتا ہے۔ ہوں گے ایماندار مگر صفائی پسند تو نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے نتیجے میں اچھے برے سب ایک category میں آتے ہیں۔ کالام میں ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق گندگی پھیلاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حضرات اپنے گھر کو زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کرتے ہیں لیکن صرف کالام آ کر گندی پھیلا کر چلے جاتے ہیں۔

جو لوگ گندگی پھیلاتے ہیں میرے نزدیک وہ سماعت و بینائی سے محروم ہیں۔ کیونکہ انسان سینے میں دل رکھتا ہے اور انسانی دل میں احساس نامی ایک چھوٹی مگر قیمتیں چیز ضرور کہیں نہ کہیں پائی جاتی ہے۔ بے ضمیر ہی صرف ایسی حرکات کر سکتے ہیں، کیونکہ اچھا تعلیم یافتہ فرد کبھی یہ نہیں چاہتا کہ اِس کے اردگرد کا ماحول آلودہ ہو یا اس کے اردگرد گندگی کی وجہ سے جراثیم جنم لیں۔ جون جولائی اور اگست میں دنیا بھر سے سیاح حضرات کالام تشریف لاتے ہیں اور قدرتی حسن کو پاؤں تلے روند کر چلے جاتے ہیں۔ ہر محلے میں کچرا، ہر گلی گندی، ہر روڑ پر پلاسٹک بیگ، ہر گراؤنڈ میں کھانے پینے کی اشیاء اس کے علاوہ باقی تفریحی مقامات پر بے ضمیر لوگوں نے اپنا ہونے کا احساس دلایا ہے۔ ہر جھیل ہر جگہ گندگی پڑی ہے مختصراً یہ کہ سیاح جہاں گئے ماحول آلودہ کیا۔

سرکاری محکمے نے شاید کئی سیاح حضرات کو جرمانہ بھی کیا ہو مگر کب تک ایسا چلتا رہے گا اور کہاں کہاں تک گندگی ڈالنے والوں کا پیچھا کریں گے؟ کالام کوئی پانچ چھ گھروں پر مشتمل علاقہ نہیں اس لئے سیاح حضرات سے عاجزانہ التماس ہے کہ اچھے بننے کی کوشش کریں۔ سیاح تو زیادہ سے زیادہ دو دنوں کے لئے آتے ہیں لیکن گند کر کے چلے جاتے ہیں پھر اس گندگی کو سمیٹنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ کالام کو یونیورسٹی اور کالجز کے بچوں نے بھی گندا کیا ہے کیونکہ یہ ٹور میں مست ہو کر پلاسٹک بیگ اور دیگر فضول اشیاء کوڑے دانوں کی بجائے ویسے پھینکتے ہیں جس سے کالام کی رونق بگڑ جاتی ہے۔

کالام کا بہترین حسن سیاح حضرات اپنی نذر کر چکے ہیں۔ یہ لوگ گندگی پھیلا کر اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں گویا اپنے چہرے پر خراشیں ڈالتے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان ان میں بہت کم لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ گندگی ڈالنے کے لیے مخصوص جگہیں ہیں جن کو حکومت نے خالص گندگی جمع کرنے کے لیے لگایا ہے۔ پہلے تو یہ کسی صورت ممکن اور برداشت کے لائق نہیں کہ ہر ہوٹل اور بازار میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگا دیا جائے اگر ایسا ہو بھی جائے تو گندگی پھیلانے والے تو پانچ فیصد بھی کم نہیں کیے جاسکتے، پھر بھی Suppose کر لیتے ہیں۔ مگر جنگلوں اور اونچے پہاڑوں میں ان کا پیچھا کرنا مشکل کام ہے، صرف پاکستانی فوج ہی یہ کام سر انجام دے سکتی ہے باقی محکمے نہیں۔

راقم خود پہلے پہل گندگی پھیلاتا تھا لیکن انسان غلطی کر کے سیکھتا ہے کے مصداق اپنی زندگی بدل ڈالی۔ ایک دن مینگورہ شہر کے مین بازار میں ہماری گاڑی کسی کام کی وجہ سے رک گئی۔ ساتھ پڑے پلاسٹک بیگ میں کیلے تھے، سو انہیں صاف کرتا اور کھاتا گیا۔ بے خبری اور انجانے میں چھلکے بھی باہر پھینکتا گیا۔ غالباً تین چار چھلکے باہر پھینک دیے تو میرے ہم عمر ایک لڑکے نے آ کر خاموشی کے ساتھ انہیں اٹھایا اور ساتھ پڑے ایک کوڑے دان میں ڈال دیے۔ شرم کے مارے آنکھیں بند کر دیے اور اُس لمحے یہ عزم کیا کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی سرزد نہیں ہوگی اور الحمدللہ وہ غلطی زندگی کی پہلی اور آخری تھی اس کے بعد waste products کوڑے دان تک پہنچاتا ہوں۔

سوات میں ہر جگہ سیر و تفریح کی جگہیں موجود ہیں لیکن جو سیاح جہاں گئے اپنا گند واپس نہیں لائے اور وہاں موجود کوڑے دان میں پھینکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ یہ لوگ وہاں ماحول آلودہ کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ سیاح حضرات کالام کی طرف دیکھیں بھی نہیں لیکن آ کر ماحول گندا نہ کریں۔ یہی التجا اور درخواست ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر جھیل سیف الملوک کی ایک تصویر viral ہوئی۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ماحول کا ستیاناس کردیا گیا ہے۔ بوتلیں اور مختلف قسم کے شاپنگ بیگ اور دیگر اشیاء اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔ ایک تو راستے ہموار نہیں اور اوپر سے گندگی اور خاشاک کے ڈھیر بنا رکھے ہیں۔ اب کی بار تو جنگلوں میں بھی کوڑے دان لگائے گئے ہیں لیکن اِس کے باوجود کوڑے دان خالی اور راستے بھرے پڑے ہیں۔

دنیا میں مہذب قومیں ماحول آلودہ ہونے کے نقصانات جانتی ہیں اور ماحول کو آلودگی سے بچانے کی ہر ممکنہ کوشش بھی کرتی ہیں، جس پر عمل پیرا ہوکر یہ مہذب قومیں ایک مثال قائم کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے لوگوں کو اتنا ضرور پتا ہوتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اس حدیث کو صرف اپنے گھر تک محدود رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کھا پی کر گندگی بھی وہیں ڈال دیتے ہیں یعنی جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید بھی کرتے ہیں۔ مھوڈنڈ، اتروڑ، گبرال، شاہی باغ کے راستوں پر آنے والی کھائیوں میں گندگی ڈالی جاتی ہے جو عموماً سالہا سال پڑی رہتی ہیں۔ اکثر احمق جھیلوں میں پلاسٹک بیگ اور دیگر اشیاء پھینکتے ہیں جس کے باعث مچھلیوں کی ایک اعلیٰ اور قیمتی قسم جوکہ خاص ہمارے علاقے میں پائی جاتی ہے ختم ہو رہی ہے۔

اب اس سنگین مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں۔ اس مسئلے پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس مسئلے کے بہت برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کہی گندگی ہو وہ قوم تڑپ تڑپ کر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے، ایک سوشل میڈیا ٹیم بنا دی جائے جو خاص کر ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ یعنی ایک زبردست آگاہی مہم کا آغاز کر دینا چاہیے اور اس مسئلے کو بچوں اور بڑوں کے نصاب میں بھی شامل کیا جائے تاکہ آنے والی نسل ایسی معاشرتی برائیوں سے امان میں رہے۔ حکومت وقت سے بھی گزارش ہے کہ اس طرف بھی دھیان فرما دیجئے کیونکہ گندگی کا مطلب مختلف بیماریوں کو مدعو کرنا ہے ہمیں اپنی صحت پیاری ہے ناکہ سیاح حضرات کی گندگی۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).