اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بیچ


تاریخ گواہ ہے کہ قومیں وہی دنیا پر حکومت کرتی ہیں جن کی لغت میں ”اگر“ نہیں ہوا کرتا اور جو اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، اس لئے، کے گرداب میں پڑ جاتی ہیں وہ پھر اس شعر کی مصداق بن جایا کرتی ہیں کہ

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے

حالات کیسی بھی سنگین صورت اختیار کرلیں، جنگ کے خوفناک بادل چھائے ہوئے ہوں یا شکست سامنے ہی کیوں نہ نظر آرہی ہو، ملک کا سربراہ ہو یا سالار، قوم اور جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اس کی آواز میں جوش ہوتا ہے، اس کے منھ سے نکلنے والے الفاظ میں جادو ہوتا ہے، اس کے زبان سے نکلنے والا ایک ایک حرف قوم اور جوانوں کا لہو گرما رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قوم کا بچہ بچہ اپنے لہو کے آخری قطرے تک دشمن کے خلاف صف آرا رہتا ہے اور پھر تاریخ اس بات کی گواہ بھی ہے کہ جب قوم بڑی سے بڑی قوت و طاقت کے آگے اپنے سربراہوں اور سالاروں کی آوازوں پر ڈٹ جاتی ہے اور اپنی جانوں کی قربانی کے لئے تیار ہوجاتی ہے تو پہاڑ جیسی طاقتیں بھی رائی کے دانوں کی طرح بکھر جایا کرتی ہیں اور نحیف و ناتواں دنیا کے تخت و تاج کے وارث بن جاتے ہیں۔ منزل کی جانب قدم بڑھانے والوں کو کبھی اس بات کی پروا نہیں ہوا کرتی کہ انھیں منزل ملے گی یا نہیں، ان کا ایک ہی ویژن ہوتا ہے اور وہ اپنے رہبر و سالار کے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھتے اور کٹتے مرتے رہنا ہوتا ہے۔

اگر مگر کرنے والے 1857 کی جنگ آزادی نہیں لڑا کرتے، تحریک خلافت کے دست و بازو نہیں بنا کرتے، مسلم لیگ کی صورت میں پاکستان بنانے کے خواب نہیں دیکھا کرتے، 1965 کی جنگ میں سیالکوٹ کے میدان میں سینوں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے نہیں لیٹا کرتے، 1971 میں البدر اور الشمس کی صورت میں پاکستان بچاؤ تحریک میں شامل نہیں ہوا کرتے اور روس کو اپنی سرحدوں سے دوربھگانے کے لئے القائدہ و طالبان نہیں بنایا کرتے۔ یہ سب کرنے والے ”اگر اور مگر“ کی ہر قید سے آزاد ہوتے ہیں اور پھر علامہ اقبال کی زبان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ

بے خطر کود گیا آتشِ نمرود میں عشق
عقل تھی محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

ایوب خان کا 65 کی جنگ میں قوم کا لہو گرمانا، ذوالفقار علی بھٹو کا اقوام متحدہ میں جرات مندانہ خطاب، ضیا الحق کا انڈیا کو آنکھیں دکھانا اور پرویز مشرف کا انڈین جارحیت کے خلاف سرحدوں کی جانب افواج پاکستان کو بھیجنا قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ یہی وہ اقدامات ہوتے ہیں جو قوم اور جوانوں کے جوش، جذبے اور حوصلوں کو مہمیز بخشتے ہیں اور قوم ہر نفع نقصان سے بے پروا ہوکر بڑے سے بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر کے رکھ دیتی ہے۔

پاکستان ہی کی کیا، دنیائے اسلام کی تاریخ میں کسی فرد و بشر نے کسی بھی ملک کے سربراہ کو ”اگر اور مگر“ کی گردان کرتے نہیں دیکھا ہوگا لیکن افسوس کہ گزشتہ کل پاکستان کے مشترکہ ایوان کے اجلاس میں ملک کے سب سے بڑے حاکم کو ”چونکہ، چنانچہ، اس لئے“ کے پھیر میں اتنی بری طرح پھنسے ہوئے پایا کہ قوم متحد ہونے کی بجائے بری طرح منقسم ہو کر رہ گئی اور اجلاس میں وہ جوش و جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا جس کی توقع قوم کر رہی تھی۔

ایک جانب ایسے نازک اور اہم موقع پر، نہایت سنجیدہ و سنگین حالات میں جوائنٹ سیشن میں تاخیر سے آنا، پھر قوم کے سربراہ کا حالات سنبھالنے کی بجائے بحث سے دلبرداشتہ ہو کر اجلاس سے اٹھ کر چلے جانا ہی کوئی اچھی اور دلیرانہ حرکت نہیں تھی اور اس پر تڑکا یہ کہ واپس آکر اسمبلی میں کسی واضح پالیسی کا اعلان کرنا، قوم کے حوصلے بڑھانا اور جذبہ جہاد سے لہو گرمانے کی بجائے ”اگر مگر چونکہ چنانچہ“ کے گرداب میں گھرجانا یقیناً قوم کے لئے اذیت کا سبب ضرور بنا ہوگا۔

اس قسم کے بے حوصلہ اظہار اور لایعنی گفتگو کو اگر سامنے رکھا جائے تو کیا یہ کہنا بے جا ہوگا کہ اتنے بڑے ہنگامی اجلاس کو بلایا جانا صرف اور صرف تضیع اوقات ہی تھا جس سے قوم کو یہی پیغام گیا کہ ہم میں فی الحال اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے دشمن کو اس کے ظلم و ستم اور اس کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دے سکیں اور وہ کشمیری جو پاکستان کا نام لے لے کر اور کشمیر بنے گا پاکستان کہہ کہہ کر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ان کی مدد کر سکیں۔

کشمیر میں ایک عرصے سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور وہ آزادی صرف اور صرف بھارت سے چاہتے ہیں۔ ان کی کسی تحریک میں بھی یہ بات اب تک سامنے نہیں آئی کہ وہ ایک آزاد و خود مختار ریاست کے خواہاں ہیں بلکہ وہ بھارتی تسلط سے نکل کر پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ ان کے در و دیوار پر لکھے نعرے اور فضاؤں میں گونجنے والی پُر جوش آوازیں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ جس تحریک کا مقصد و مدعا ہی پاکستان ہو اور جو خطہ اصولاً اور اخلاقاً پاکستان ہی کا حصہ ہو، اگر اس پر بھارت اپنا قانونی حق بھی جتانے لگے تو پاکستان کے لئے یہ بات ڈوب مرنے کے برابر ہے کہ اس کا وزیراعظم یہ کہتا نظر آئے کہ ”اگر بھارت نے ہمارے آزاد کشمیر میں کوئی کارروائی کی تو ہم اس کا بھر پور جواب دیں گے۔“ اس کا صاف صاف مطلب تو یہ ہوا کہ بھارت کو اپنے قبضہ کیے ہوئے کشمیر میں ہر قسم کا ظلم و جبر کرنے کی پوری آزادی ہے۔ کیا اس کا اثر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والے مسلمانوں پر نہیں پڑے گا جو ہندوستان سے رشتہ توڑ کر پاکستان سے الحاق کرنے کی خواہش کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔

یہ بحث اپنی جگہ، اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ جنگ کی صورت میں بھی ”اگر مگر چونکہ چنانچہ“ والی گردانوں کی تکرار عقل و فہم سے بالاتر دکھائی دے رہی ہے۔ کسی حکمران کا یہ کہنا کہ ”اگر جنگ ہوئی تو وہ ہمارے خلاف بھی جاسکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا“ وغیرہ، کیا قوم کے حوصلے بلند کر سکتا ہے؟ ایسے الفاظ تو اس بات کے غماز ہیں کہ قوم انجام بد (خدانخواستہ) کے لئے بھی تیار رہے۔ جس حکمران کو اپنی کامیابی سے زیادہ ناکامی کا اندیشہ ہو، کیا وہ جنگ کرنے، کسی کے ظالمانہ اقدامات کو روکنے، کسی قوم کو اور وہ بھی وہ قوم جو خود آپ سے پیار کرتی ہو اور آپ ہی سے الحاق چاہتی ہو، اس کے خلاف قتل و غارت گری جیسے اقدامات کے خلاف علم عزم و ہمت بلند کر سکتا ہے؟

ایک جانب ”سرکار“ کا یہ عجیب و غریب انداز فکر کہ وہ خود کوئی حتمی قدم اٹھانے کی بجائے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے مخالفین سے فیصلہ مانگنا چاہ رہی ہو کہ کیا ”میں بھارت کے خلاف اعلان جنگ کردوں“ تو دوسری جانب ہمارا ”سالار“ اس اہم اور سنگین ترین حالات پر سارے فیصلوں کا ذمہ دار حکومت کو بنا کر یہ کہتا نظر آرہا ہے کہ ”حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں۔“

ایک مشکل یہ بھی ہے کہ آج تک اس بات کا فیصلہ ہی نہیں ہو سکا کہ پاکستان میں ”حکومت“ کر کون رہا ہے۔ اہم فیصلے کہاں ہوتے ہیں اور کون ہے جو ملکی و غیر ملکی معاملات کو آخری شکل دیتا ہے۔ اگر فیصلے وہ حکومت کرتی ہے جو نظر بھی آتی ہے تو پارلیمنٹ کو ان فیصلوں کا علم کیوں نہیں ہوپاتا اور اگر فیصلے وہ حکومت کرتی ہے جس کو دیکھا نہیں جاسکتا تو پھر حکومت ان فیصلوں پر کس لئے عمل درآمد کرنے پر مجبور ہوتی ہے؟ ایک جانب حکومت (نظرآنے والی) سب کچھ کی ذمہ دار بنادی جاتی ہے تو دوسری جانب ایک ماہ کے اندر اندر نہ نظر آنے والی حکومت قانون میں اپنی مرضی کی ترمیم کرا لیتی ہے۔

آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کے لئے آئینی اختیارات کس نے اور کیسے حاصل کیے؟ حکومت جن معاملات کو بات چیت سے طے کرنا چاہتی تھی اور خود آج امریکہ ان معاملات کو بات چیت سے طے کرنے پر مجبور ہے، بندوق کے زور پر حل کرانے کی کس کی خواہش تھی اور حکومت وقت سے ایک ماہ کے اندر اندر قانون میں ترمیم کس نے کرائی تھی؟

اس قسم کے سارے عذر لنگ ”آنکھ مچولی“ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کبھی حکومت، ایک اور حکومت کے پیچھے چھپ جاتی ہے اور کبھی ایک اور حکومت، حکومت کے پیچھے چھپ کر اپنی جان بچانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے سارے بہانے، ساری لیت و لعل، عذر اور اقدامات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ پس پردہ معاملات کچھ اور ہی ہیں اور کسی بہت بڑے فورم کی لوح پر کچھ اور ہی رقم کیا جاچکا ہے۔ اس لئے پاکستانی قوم کا یہ گمان کرنا کہ ”سرکار“ یا ”سالار“ بھارت کے اقدامات پر کسی قسم کا سخت ایکشن لیں گے، سخت خوش گمانی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

حسب سابق ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات، جلسوں، جلوسوں اور پریس کانفرنسوں میں خوب شوروغوغا مچایا جائے گا۔ دنیا کے بہت سارے فورموں میں رویا اور گایا جائے گا اور دنیا کے بہت سے ممالک کے آگے شکایات کے انبار لگائے جائیں گے اور پھر کشمیر کے بیٹوں، بیٹیوں اور ماؤں بہنوں کی چیخوں اور آہوں کو دفن کر دیا جائے گا اور قوم اسی فریب میں مبتلا رہے گی کہ کشمیر بس کل ہی آزاد ہوا چاہتا ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک کی یہی کہانی ہے اورلگتا ہے کہ اس روایت کو زندہ و جاوید رکھنا ہماری سرکار و سالار کے فرائض اولین میں شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).