بڈھی گھوڑی لال لگام


”یار اس عورت کو دیکھو کتنے شوخ رنگ کی لپ اسٹک لگائی ہوئی ہے اور کپڑے بھی دیکھو کتنے رنگین پہنے ہوے ہیں یہ اس کی عمر اللہ اللہ کر نے کی ہے مگر اس عمر میں بھی اتنا شوخ پن۔“ دوسرے نے جلدی سے اس کی بات کاٹی اور کہا ”یار یہی کہہ دے ’بڈھی گھوڑی لال لگام‘ ہاہاہاہا۔“ ایک طرف دو لوگ قہقہوں میں گم تھے تو دوسری طرف ایک درمیانی عمر کی خاتون اپنے آنسو پیتے ہوے آگے بڑھ گئی۔ ان دو لوگوں کے درمیان یہ گفتگو حقیقت میں ہمارے معاشرے کی اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس میں عورت کو آسان ٹارگٹ سمجھتے ہو ئے اس کے لئے اس طرح کے القابات کا استعمال معمولی سی بات ہے۔

آپ نے بھی یقینا یہ جملہ مختلف اوقات میں سنا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ بو لا بھی ہو۔ کیو نکہ ہمارے ہاں جب بھی کسی درمیانی عمر کی خاتون کو شوخ رنگ کی لپ اسٹک لگائے یا پھر نو جوان لڑ کیوں والا فیشن کیے ہوئے دیکھیں گے توآپ کے منہ سے بھی یہ جملہ بے اختیار نکلے گا۔ یہ سوچ میرے اندر کافی عرصے سے پل رہی تھی کہ آخر ایسے القابات یا جملے خواتین کے لئے کیوں بو لے جاتے ہیں؟ مگر میری سوچ اس وقت مزید الجھی جب میں نے کچھ دن پہلے ایک پاکستانی سپر ماڈل جس کی عمر 40 سال کے لگ بھگ ہے اس کی سوشل میڈ یا پر ایک پو سٹ دیکھی۔ جس میں اس نے خو بصورت ساڑھی زیب تن کی ہوئی تھی اور سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی اور وہ بڑے اعتماد سے کہتیں ہیں کہ ”مجھے علم ہے کہ آپ لوگ مجھے ایسے دیکھ کر یہی کہیں گے کہ ’بڈھی گھوڑی لال لگام‘ مگر میں یہ سب سننے کے لئے تیار ہوں کیو نکہ مجھے میری زندگی میرے اپنے انداز سے جینی ہے۔“

اس کی پوسٹ نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا کہ تضحیک تو کسی کی بھی نہیں ہو نی چاہیے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت کسی کو بھی اس کے مطابق زند گی گزارنے پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے مگر ہمارے ہاں ہمیشہ عورت کے بارے میں ہی ایسی رائے کیوں ر کھی جاتی ہے؟ اور اس کی پوسٹ دیکھ کر میں نے یہ بھی سوچا کہ کیا منفی سوچ اتنی پاور فل ہوتی ہے کہ ہے جو عورت کو اتنا نڈر کر دیتی ہے کہ وہ اس نہج پر پہنچ جاتی ہے کہ اس کو آپ کی کسی سخت سے سخت بات کی بھی پروا نہیں رہتی، بلکہ وہ چیلنج کرتی ہے کہ مزید بو لو مگر میں اپنے انداز کو نہیں چھوڑوں گی۔

ہارے ہاں ادھیڑ یا درمیانی عمر کے مرد حضرات بھی شوخ رنگ کی ٹی شرٹس، تنگ پاجامے پہنتے ہیں مگر ان کے بارے میں تو کبھی ایسے منفی جملے نہیں کہے جاتے بلکہ ان کی ہمت افزائی کی جاتی ہے۔ آخر عورت کو اس کی پسند کی زند گی گزارنے یا مرضی کا لباس پہننے پر تنقید یا تضحیک کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ میں نے اس جملے کے حوالے سے اپنی ایک جاننے والی بزرگ خاتون سے بات کی کہ عورت کو ہی کیوں ”بڈھی گھوڑی لال لگام“ کہا جاتا ہے، شوخ رنگ پہنے ادھیڑ عمر مرد کو بھی تو ”بڈھا گھوڑا لال لگام“ کہا جاسکتا ہے کیو نکہ سیدھی سی بات ہے کہ گھوڑا بھی تو لال لگام پہن سکتا ہے صرف گھوڑی ہی کیوں؟

میرا سوال سننے کے بعدوہ ہنس پڑیں اور بو لیں کہ ”یہ اس لئے کہا جاتا ہے کیو نکہ پترکوڑا تے مرد کدی وی بڈھے نہیں ہو ندے۔“ (مطلب کہ گھوڑا اور مرد کبھی بوڑھے نہیں ہو تے یہ سدا جوان رہتے ہیں)۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے بہت حیرت ہو ئی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کیونکہ عمر تو جنس سے بے نیاز ہو تی ہے۔ یہ تو بڑھتی رہتی ہے جب تک زندگی آگے بڑ ھتی جاتی ہے عمر بھی زیادہ ہو تی جاتی ہے۔ اگر کوئی خاتون 60 کا ہندسہ پورا کرتیں ہیں تو مرد بھی تو 60 تک پہنچتے ہیں۔

اس جملے کی گہرائی میں جایا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس سوچ ”کہ گھوڑا اور مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ کا تعلق مردکی عمر سے نہیں بلکہ اس کی ”مردانہ طاقت“ سے ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف تو ہمارے ہاں 30 کا ہند سہ عبور کر نے کے بعد تو لڑکی کو بہت آسانی کے ساتھ عورت کا ٹا ئٹل دے دیا جاتا ہے کیو نکہ یہ سوچ بہت گہری ہے کہ 30 کے بعد وہ عورت بن گئی ہے۔ اس لئے تو لڑ کیوں کی شادی کے لئے ایک آئیڈیل عمر کی حد مقر ر کر دی گئی ہے کہ بس 20 اور 25 کے درمیان ہی شادی کر دی جائے کیو نکہ 30 کے بعد تو لڑکی میں کچھ نہیں رہتا۔

ایک اور بھی حیرت کی بات بتاتی چلوں کہ جس مرد کی مردانہ طاقت پر یہاں کو ئی سوال نہیں کیا جاتا وہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”اولاد مرد کے نصیب میں ہوتی ہے اور رزق عورت کے“ مگر اولاد نہ ہو نے پر طعنے ہمیشہ عورت کو ہی دیے جاتے ہیں۔ اس کو حد درجہ ذلیل کیا جاتا ہے کیو نکہ مرد کی ”مردانہ طاقت“ پر تو کوئی سوال اٹھ ہی نہیں سکتا کیو نکہ اس میں بچہ پیدا کر نے صلاحیت مرتے دم تک رہتی ہے۔ ہم نے اپنے کچھ میعار بنا دیے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کی پیروی صرف اور صرف ایک عورت ہی کرے۔

ہم بچے کو بولنا تو سکھا دیتے ہیں مگر کیا بولنا ہے اور بولتے ہوئے کسی دوسرے کے جذبات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے ہم یہ سکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو انگریزی سکھانے کے لئے تو ہزاروں روپے خر چ کر تے ہیں مگر ان کو اخلاقیات سکھانا بھول جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے الفاظ کے معاملے میں بہت ”حساس“ ہو نا چاہیے کیو نکہ مرد ہو یا عورت، جذبات سب کے ہوتے ہیں۔ بڑ ھاپا ایک حقیقت ہے اور اس کا تعلق مرد یا عورت کی کسی طاقت یا کمزوری نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر عمر کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ کسی کے لئے بھی اس کی عمر کو طعنہ نہیں بنانا چاہیے۔ کو ئی جس بھی لائف سٹائل میں خوش ہو خدارا اس کو خوش رہنے دیجیے۔ اس لئے اگلی بار اگرآپ کا دل کسی ”زندہ دل خاتون“ کو بڈھی گھوڑی لال لگام کہنے کو کرے تو ایک سیکنڈ کے لئے رکیے گا اور اپنے گھر میں جھانکیے گا۔ اسی عمر کی عورت آپ کے اپنے گھر میں آپ کے کسی بڑے معتبر رشتے کی صورت میں مو جود ہوگی، بس ایک نظر اس معزز خاتون کو دیکھ لیجیے گا۔ آخر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ کہ بڈھی گھوڑی حقیقت میں آپ کی منفی سوچ ہے اس کو مہر بانی فرما کر لگام دیں۔

یہ بھی پڑھئیے:

فردوس جمال نے بڈھی کو بڈھی کہہ دیا تو کون سی قیامت آ گئی: وینا ملک

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).