بھارتی بربریت اور پاکستان کا کردار


غازی کے اہل خانہ کو بھارتی فوج آج اس سے ملوانے لے جارہی تھی، کشمیر کے کئی نوجوانوں کی طرح غازی نے بھی اپنی دھرتی پر لہو کو پانی کی طرح بہتے دیکھا تھا۔ غازی نے بھی ان بہنوں کی چیخیں سنی تھیں جو بھارتی درندوں کے آگے بے بس تھیں۔ لیکن افسوس کے یہ خون اقوام عالم کو نظر نہ آیا افسوس کے لٹتی بہنوں کی چیخوں پر بھارت کی ہٹ دھرمی کے آگے اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آئی۔ غازی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ اپنی بہنوں کا محافظ بنے گا اب وہ اپنی ماؤں کے دوپٹے سنبھالے گا ظاہر ہے بہن لٹ رہی ہو تو اس وقت کہاں امن یاد رہتا ہے، غازی بھی جان چکا تھا کہ حملہ گھرپر ہو تو مصلے نہیں تلاش کیے جاتے بلکہ حسینی ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے اور سجدے تلواروں کی دھار پر کیے جاتے ہیں۔

غازی کے اہل خانہ کو جس فوجی وین میں بٹھایا گیا اس میں ہر طرف مہک تھی، خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ غازی کی اہلیہ کہ نظر وین پر پڑے لہو پر پڑی پھر ایک کونے میں ایک بوری نظر آئی جہاں سے یہ مہک اٹھ رہ تھی۔ غازی کے جسم کے ٹکڑے خدا کے روبرو سرخرو ہونے جارہے تھا۔ یہ داستان بس ایک غازی کی نہ تھی۔ لاکھوں غازی کٹ گئے لاکھوں بہنیں لٹ گئیں لیکن دنیا کے منصفوں کو کچھ نظر نہ آیا۔

کچھ دن قبل بھارت میں برسراقتدار دہشت گرد جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا۔ جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی کے زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا اور اس کا اعلان وزیرِ داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں کیا۔ امت شاہ کے اعلان سے قبل ہی صدرِ مملکت اس بل پر دستخط کر چکے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی طویل عرصے سے کشمیر سے متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی تھی جو جموں و کشمیر کو دیگر انڈین ریاستوں سے منفرد بناتی تھی۔ تقسیمِ کے وقت جب بھارتی راجہ نے کشمیریوں کی رائے کے خلاف بھارت سے الحاق کیا تو بھارت کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔

تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس پر سنہ 1951 میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔ بھارت نے اس شق کو ختم کرتے ہی اضافی فوجی نفری کو کشمیر بھیجا۔ مہلک ہتھیاروں کا استعمال ہوا، کشمیرمیں قتل عام سے ایک بار پھر تحریک آزادی کو کچلنے کی ناکام کوشش کی گئی، حریت رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا۔

موبائل اور انٹرنیٹ سروس ریاست میں معطل کر کے اس کا رابطہ باقی دنیا سے ٹوڑنے کی کوشش کی۔ بھارت کا کشمیریوں پر یہ حملہ در اصل اقوام متحدہ پر حملہ ہے۔ یہ حملہ در اصل مسلم دنیا کی غیرت پر حملہ ہے۔ یہ حملہ مسلم فوجی اتحاد پر حملہ ہے۔ لیکن افسوس کے ہم اب بھی ٹویٹ ٹویٹ اور سلیکٹڈ الیکٹڈ کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں اس معاملے پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ سول و ملٹری قیادت نے شرکت کی۔ کشمیر کے معاملے پر پارلیمینٹ کا بھی مشترکہ اجلاس بلایا گیا، جس میں تمام اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنا بین لاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اجلاس میں اراکین نے اقوام متحدہ سے ا س بات کا مطالبہ بھی کیا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرائے اور بھارتی ہٹ دھرمی اور بربریت کا نوٹس لے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر وطن واپس آگئے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب کرنے یا ان باتوں سے بھارت پر کوئی اثر ہوگا؟ کیا اقوام متحدہ نے فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں پہلے کبھی موثر کردار ادا کیا جو اب کیا جائے گا؟ وزیراعظم عمران خان پوچھتے ہیں کیا میں حملہ کردوں؟ وزیراعظم صاحب یہ فیصلہ تو آپ نے کرنا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی، آپ کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا لیکن چلیں حملہ نہ سہی کچھ اور اقدامات تو کیجئیے۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ نے دانشمندانہ بات کی، بالکل جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ لیکن آپ اور آپ کی سفارتی ٹیم دنیا کے پاس جائیں کشمیر کا مسئلہ دنیا کو سنائیں وہ جو امریکا سرکار طالبان کے معاملے میں آپ سے مدد مانگ رہا ہے اور ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بات کرتا ہے اس کو کشمیر کی روداد سنائیں ورنہ افغانستان کے معاملے پر پیچھے ہٹ جائیں۔

چین اس مسئلے کا تیسرا بڑا فریق ہے۔ لداخ کی سرحد چین سے ملتی ہے۔ چین کے ساتھ مل کر کشمیر کے مسئلے پر کام کیا جا سکتا ہے، بھارت کے لئے فضائی سروس مستقل طور پر بند کی جائے۔ بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت ختم کی جائے۔ سفارتی تعلقات بھی علامتی طور پر بند کیے جائیں۔ سلامتی کونسل اور سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے لئے چین سے فوری رابطہ کیا جائے۔ عرب ممالک سے درخواست کی جائے کے بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالے ورنہ پاکستان اسلامی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے پر غور کرے ساتھ ہی بھارتی ملٹری اتاشی کو ملک سے بے دخل کردیا جائے۔

حضرت امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ ”مجھے کربلا میں اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی۔“ یاد رکھیں اگر آج ہم خاموش رہے تو کل روز قیامت ہم بھی اہل کوفہ کی صفوں میں کھڑے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).