بلغراد کے بے وطنے


بلغراد کا پرانا ریلوے سٹیشن اب آمدو رفت کے لیے بند ہو چکا ہے۔ مگر مجھے اسے دیکھنا ضرور تھا، اس لیے کہ میری دو پسندیدہ سواریاں ہیں، سائیکل اور ریل گاڑی۔ دنیا بھر میں مجھے مختلف ٹرینوں پر سفر کرنے کا شوق چلا آرہا ہے، ایک عجب رومانس ہے اس سواری میں۔ اپنی حالیہ جہاں گردی میں بھی ریل گاڑی ہی زیادہ تر سواری کے طور پر استعمال کی، جہاز پر تو مجبوراً سفر کیا۔ جہاز کا سفر مغرب میں ریل گاڑی کے مقابلے میں بہت سستا ہے۔

بلغراد میں اپنے قیام کے آخری روز میں اور ریما بلغراد کے پرانے ریلوے سٹیشن کی طرف کڑکتی دھوپ میں روانہ ہوئے۔ کیا پُر شکوہ عمارت ہے! کسی بھی شہر کا منہ متھا اس کا ریلوے سٹیشن ہی ہوتا ہے۔ سٹیشن کے باہر اور اندر کی تصاویر اور ویڈیو بناتے بناتے ریلوے سٹیشن کی عمارت کے اندر داخل ہوگیا۔ سربیا کا دارالحکومت، بلغراد، کبھی یوگوسلاویہ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا اور میں اس کے ریلوے سٹیشن کے اندر تھا۔ اجڑی عمارت، لائنوں پر گھاس اگ چکی تھی۔

کبھی اس روٹ پر دنیا کی معروف ٹرینیں چلتی تھیں، بشمول یورپ کی معروفِ زمانہ اورینٹ ایکسپریس۔ لاکھوں مسافر اس سٹیشن پر آئے اور گئے ہوں گے مگرآج مجھے یہاں ایسے مسافر ملے جو ”بے وطن“ ہو چکے تھے۔ دنیا میں راہداری کے اپنی سرکار کے کاغذات (پاسپورٹ) اور ملکوں کے اجازت ناموں (ویزوں ) سے بے پروا، ”بے وطنے“۔
اب وہ کسی ملک کے باشندے نہیں تھے۔

بلغراد کے اس ریلوے سٹیشن پر اب ٹرینیں تو نہیں آتیں مگر، کچھ بسوں کی کمپنیاں آج بھی مسافروں کو یہاں لاتی اور لے جانے کی سروسز مہیا کرتی ہیں۔

میلی کچیلی ٹی شرٹس اور پتلونیں اور نئے قیمتی جوگر پہن رکھے تھے۔
”ریما! یہ میرے ہم وطن ہیں، مگر اب ان کا کوئی وطن نہیں۔ مجھے ان کی باتیں سننی ہیں۔ “ دس گیارہ نوجوان۔ میں کان لگا کر ان کی باتیں سنتا رہا۔

ایک پاکستان فون کر رہا تھا۔ ”گیارہ ہزار بھیج دو۔ “
سب خوش تھے، کیوں؟ اس کا مجھے اندازہ تھا۔
موت کے راستوں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندروں کو عبور کرکے آئے تھے یہاں تک۔

جہاں گردی کے دوران اکثر میرا ان بے وطنوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یورپ میں شاندار مستقبل کے متلاشی ”بے وطنے“ بہت خوش تھے۔ چونکہ اپنا وطن چھوڑ کر، ایران اور ترکی میں موت کی وادیوں کو عبور کرکے ”کافروں کے دیسوں“ کے اندر تک پہنچ گئے تھے۔ منفی چالیس تک سرد خطوں سے لے کر تپتے صحراعبور کر کے یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

آخری معرکہ، ترکی یونان کی سرحد کو ترکی کی کوسٹل گارڈز (سمندری پولیس) کی گولیوں سے بچ جانا، موت کے کنویں کا کھیل ہے۔ کئی ان گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں، کچھ سمندر کی لہروں کی نظر ہو جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں یہ ان ”بے وطنوں“ میں سے تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے یہاں تک پہنچنے پر بڑے خوش تھے، ان کی خوش گپیوں سے کافی دیر تک محظوظ ہوتا رہا۔

ریما نے کہا، ”بس! اب چلتے ہیں۔ “
میں نے کہا، ”نہیں مجھے ان سے ملنا ہے۔ “

میں واپس مڑا، ان کو بلند آواز میں کہا، ”السلام علیکم! “
ان کو پہلے اندازہ نہیں تھا کہ جو شخص ان کے پاس کھڑا ہے وہ انہی میں سے ہے ( پاکستانی) ۔

سب بڑی گرم جوشی سے ملے۔
”سر، آپ سیر کرنے آئے ہیں؟ “
”جی! “

یہ نوجوان زیادہ تر لاہور اور گوجرانوالہ سے تھے۔ بہت کھل کر میرے سوالوں کا جواب دیتے رہے اور مجھے کچھ کھانے اور پینے کی بھی آفر کی ان ”بے وطن“ ہم وطنوں نے۔ بہت چاہت تھی ان میں کہ میں نے ان سے بات چیت کی ہے۔
پوچھا، ”کتنے عرصے میں یہاں تک پہنچے؟ “

جواب ملا، ”چار مہینوں میں، پیدل، گدھوں ٹرکوں اور دیگر مال بردار سواریوں میں جانوروں کے ساتھ، اللہ کاشکر ہے ایران اور ترکی عبور ہوا، یونان پہنچے تو اطمینان ہوا، “ کچھ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، چار کو ترک پوسٹل گارڈز کی گولیوں نے گھائل کر دیا، رات کی تاریکی ہوتی ہے، جب لاشیں گرتی ہیں نہ معلوم انہیں صبح کون اٹھاتا ہے؟

پوچھا، ”ایجنٹ کو کتنے دیے؟“
جواب تھا، ”چھ لاکھ، مگر اوپر اور بھی اب خرچ ہو رہا ہے۔“
کچھ کی منزل سپین تھی اور کچھ کی اٹلی۔

مجھے اپنے ان ہم وطن بے وطنوں کو مل کر بہت اداسی ہو گئی۔ کئی کہانیاں میں نے سن رکھی ہیں ان ”بے وطن ہوئے ہم وطنوں“ سے۔ پاسپورٹوں کے بغیر دنیا کے سفروں کے یہ راہی روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں، اس وقت بھی ترکی کی جیلوں میں ہزاروں پڑے ہیں۔

بلغراد کے بند ہوئے ریلوے سٹیشن پر ملے یہ مسافر، مجھ جہاں گرد کو کس قدر اداس کر گئے، وہ میں ہی جانتا ہوں۔ اٹلی اور سپین پہنچ گئے تو ان کا جو نیا سفر شروع ہو گا مجھے اس کا بھی اندازہ ہے۔ اب ساٹھ، ستر، اسی حتیٰ کہ نوے کی دہائی بھی نہیں۔

دل نہیں چاہ رہا تھا ان کو الوداع کہتے، ابھی انہوں نے بہت طویل سفر کرنے تھے۔
الوداع جو ہوا، تو ریما کی آنکھیں اشک بار تھیں اور میرے پاؤں بوجھل۔

میرے بے وطن ہوئے ہم وطن۔
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے
تے ککھ جنہاں توں بھارے ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).