خورشید شاہ کے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے، 83 جائیدادیں، 105 بینک اکاﺅنٹس کا انکشاف


پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ کے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثوں کا انکشاف ہوا ہے۔ نیب کی جانب سے سید خورشید شاہ کے خلاف انتہائی اہم شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں ۔ نیب نے خورشید شاہ کے اکاؤنٹس، بے نامی جائیدادوں ، بدعنوانی سے بنائے گئے اثاثوں اور فرنٹ مین کی تفصیلات بھی حاصل کرلی ہیں۔ خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اگر ان پر ان الزامات میں سے ایک فیصد بھی ثابت ہوگئے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔

نیب کی دستاویز کے مطابق پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر شہروں میں 105 بینک اکاؤنٹس ہیں اور انہوں نے اپنے فرنٹ مین پہلاج مل کے نام پر83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں جو سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر شہروں میں بنا ئی گئی ہیں۔ خورشید شاہ کا فرنٹ مین پہلاج مل ایک معمولی دکاندار ہے جس نے 2015 سے پہلے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا لیکن اس کے نام پر پہلاج رائے گلیمر بینگلو ، جونیجو فلور ملز، مکیش فلور ملز اور دیگر جائیدادیں موجود ہیں۔

نیب کی دستاویز میں مزید فرنٹ مینوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ خورشید شاہ نے اپنے مبینہ فرنٹ مین لڈومل کے نام پر11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائی ہیں۔ اعجاز پل کے نام پر سکھر اور روہڑی میں 2 جائیدادیں بنائی گئیں جبکہ اس کے ذریعے کارڈیو ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ نرسری بھی الاٹ کرائی گئی۔

نیب کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں عمر جان نامی شخص کا بھی اہم کردار ہے، پی پی رہنما کی زیر استعمال بم پروف گاڑی عمرجان کے نام پررجسٹرڈ ہے جبکہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے ، سکھر اور دیگر علاقوں میں ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو دلوائے گئے۔

دوسری جانب اثاثوں کی خبر سامنے آنے پر اپنے رد عمل میں سید خورشید شاہ نے کہا کہ 500 ارب اور105 بینک اکاؤنٹس کاالزام ایک فیصد بھی درست ثابت ہواتوسیاست چھوڑدوں گا، غیر جانبدارانہ تحقیقات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے بغیر جھوٹی خبریں پھیلانا موجودہ حکومت کا وتیرہ ہے،حکومت اوچھے ہتھکنڈوں سے اپوزیشن کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے، احتساب کے نام پر جھوٹ بولا جا رہا ہے اور پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).