کتے اور بھیڑیے کی نسل ملا کر ’ولف ڈاگ‘ پیدا کرنے کے لیے پاکستان میں بھیڑیوں کی نسل کشی


ولف ڈاگ

اسلام آباد میں بھی کئی ‘ولف ڈاگ’ موجود ہیں اور ان کے مالک اس کو فخر کی بات سمجھتے ہیں

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ ہفتے غیر قانونی خرید و فروخت کے لیے لائے گئے تین مادہ بھیڑیوں کو مارگلہ کے جنگلات میں چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف میجنمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ تین مادہ بھیڑیے جن کی عمر چھ ماہ سے زائد نہیں، کو سوات سے پکڑ کر اسلام آباد لایا گیا تھا اور یہاں سے ان کو لاہور پہنچایا جانا تھا۔ مگر اس سے پہلے ہی وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے ان کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔

ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق ملزمان نے بتایا ہے کہ ان تینوں بھیڑیوں کی قیمت ایک لاکھ روپے طے ہوئی تھی اور ان کا اعلیٰ نسل کے کتوں کے ساتھ ملاپ کروانے کے بعد مشہور زمانہ ’ولف ڈاگ‘ کو پیدا کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چاروں صوبوں بشمول پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھیڑیے پائے جاتے ہیں مگر یہ نسل کشی کے خطرے سے دوچار ہیں۔

بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے بھی ان کو خطرے کا شکار قرار دیا ہے۔ ان کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے جبکہ کسی بھی جنگلی حیات کو قید میں رکھنے کا کوئی بھی جواز موجود نہیں ہے۔

ڈاکٹر انیس کے مطابق یہ بھیڑیوں کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی قدرتی آمجگاہوں ہی میں گزاریں جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کو قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائے۔

ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق مارگلہ اور ملحقہ علاقوں میں بھیڑیوں کی قدرتی آمجگاہیں موجود ہیں اور یہاں پر ان کی کچھ تعداد بھی آباد ہے۔ ماہرین کے مشورے کے بعد ان بھیڑیوں کو اسلام آباد کے قریب مارگلہ کے جنگلات میں چھوڑا گیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کے یہاں یہ اپنی قدرتی زندگی گزار سکیں گے۔

مادہ بھیڑیے

کتے اور مادہ بھیڑیے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا ولف ڈاگ انتہائی مہنگا اور قیمتی کتا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی قیمت 20 ہزار سے شروع ہو کر تین سے چار لاکھ روپے تک بھی جا سکتی ہے

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات سے پی ایچ ڈی کرنے والے غلام سرور نے مادہ بھیڑیوں کو جنگل میں چھوڑے جانے کے اقدام کو انتہائی احسن قرار دیتے ہوئے بتایا کہ چند سال قبل شائع ہونے والے ایک بین الاقوامی ریسرچ پیپر کے مطابق پاکستان میں 1200 سے 1500 بھیڑیے ہوسکتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں ان کی تعداد 350 کے لگ بھگ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قدرتی ماحول میں ان کی عمر 15 سے 19 سال کے درمیاں تک ہوتی ہے جبکہ پنجرے میں قید بھیڑیا زیادہ سے زیادہ آٹھ سے نو سال تک ہی زندہ رہتا ہے۔

پاکستان میں بھیڑیے کی نسل کو بہت سے خطرات لاحق ہیں جن میں ان کی قدرتی آماجگاہوں کا سکڑنا، خوراک کا مسئلہ اور کتے اور مادہ بھیڑیے کا ملاپ کروانے کے لیے کم عمر مادہ کو جنگلات سے پکڑنا شامل ہیں۔

’ولف ڈاگ‘ کی نسل

غلام سرور کے مطابق کتے اور مادہ بھیڑیے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا ولف ڈاگ انتہائی مہنگا اور قیمتی کتا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی قیمت 20 ہزار سے شروع ہو کر تین سے چار لاکھ روپے تک بھی جا سکتی ہے۔

کتے اور بھیڑیے کے ملاپ کے بعد ایک اور نسل کا پیدا ہونا ایک انتہائی پیچیدہ اور وقت طلب کام ہوتا ہے۔

اس مقصد کے لیے کم عمر مادہ بھیڑیا جس کی عمر کسی بھی صورت میں چھ ماہ سے زائد نہ ہو کو سوات، ہزارہ، بلوچستان، گلگت بلستان اور پنجاب کے جنگلات سے پکڑا جاتا ہےاور اس کو لاہور یا کراچی پہنچایا جایا جاتا ہے، جہاں پر ایسے بااثر گروپ موجود ہیں جو اس مادہ بھیڑیے کو کتے کے ساتھ ملاپ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس کام کے لیے سب سے بڑا مرکز لاہور ہے جب کہ کراچی کا دوسرا نمبر ہے۔ مادہ بھیڑیے کے ملاپ اور بچہ دینے کی عمر کم از کم دو سال ہوتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بھیڑیے اور کتے دو الگ نسلیں ہیں اور قدرتی طور پر یہ ایک دوسرے کی طرف راغب نہیں ہوتیں۔

ان کو ایک دوسرے سے مانوس کرنے کے لیے کم عمر مادہ بھیڑیے اور کتے کو کئی ماہ تک ایک ساتھ رکھا جاتا ہے۔

مادہ بھیڑیے

قدرتی ماحول میں ان کی عمر 15 سے 19 سال کے درمیاں تک ہوتی ہے جبکہ پنجرے میں قید بھیڑیا زیادہ سے زیادہ آٹھ سے نو سال تک ہی زندہ رہتا ہے

غلام سرور کے مطابق کتے اور بھیڑیے کو اس دوران ان کی اپنی نسل کے ساتھ گھل ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ جب یہ بلوغت کی عمر کو پہچنتے ہیں تو پھر ان کو مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔

جب مادہ بھیڑیا حاملہ ہوتی ہے تو اس کو کتے سے الگ کر دیا جاتا ہے اور اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، جس کے لیے ان گروہوں کو ماہرین حیوانات کی بھی خدمات حاصل ہوتی ہیں اور جب ’ولف ڈاگ‘ پیدا ہوتا ہے تو اس کو چند ماہ تک مادہ بھیڑیے کے پاس چھوڑا جاتا ہے اور پھر الگ کردیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ولف ڈاگ‘ پیدا کرنے کا مقصد ایک ایسا کتا پیدا کرنا ہوتا ہے جس کے اندر کتے اور بھیڑیے کی خصوصیات اور طاقت موجود ہو تاکہ اس کو ریچھ اور سور کی لڑائی میں استعمال کیا جائے۔

گو کہ اس پر پابندی ہے اور کتے اور ریچھ کی لڑائی پر بہت حد تک کنٹرول بھی کرلیا گیا ہے مگر شائقین چھپ چھپا کر ایسے مقابلے منعقد کر لیتے ہیں۔ کتے اور سور کی لڑائی کا رواج چند سال قبل ہی شروع ہوا ہے۔

غلام سرور کے مطابق اس کام میں کئی بااثر افراد ملوث ہیں اور وہ اپنے شوق کو زیادہ خفیہ بھی نہیں رکھتے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر بھی اس جانوروں کی خرید و فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ اسلام آباد میں بھی کئی ’ولف ڈاگ‘ موجود ہے اور ان کے مالک اس کو فخر کی بات سمجھتے ہیں۔

انسانوں سے تنازعہ اور ماحولیاتی خطرات

غلام سرورکے مطابق بھیڑیے کا قدرتی ماحول میں انتہائی اہم کردار ہے جو بیک وقت انسانوں اور جانوروں کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کا شکار عموماً خرگوش، بوڑھے ہرن، بیمار، لاغر اور ہر قسم کے مردہ جانور ہوتے ہیں جن کو یہ اپنی خوراک بنا کر جنگلی ماحول کو بیماریوں سے محفوظ کرتا ہے۔

اس طرح نہ صرف یہ جنگلی حیات کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ جنگل کے قریب موجود انسانی آبادیوں سے بیماریاں دور رکھتا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ جنگلات کا رقبہ کم ہونے کی بنا پر اس کی آمجگاہیں کم ہوتی جارہی ہیں اور ان کے شکار ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھوک کے مارے انسانی مال مویشی اور فصلوں پر حملہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انسان ان کو اپنا دشمن سمجھ کر ہلاک کر دیتے ہیں۔

غلام سرور کے مطابق اگر کسی علاقے میں بھیڑیے کی نسل ختم ہو چکی ہو تو پھر خرگوش اور ہرن کی تعداد حد سے بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے درختوں اور چراگاہوں کا خاتمہ ہونا عین ممکن بن جانے کے علاوہ انسانوں کے مال مویشی پر حملے بڑھ جاتے ہیں۔

بھیڑیے کا قدرت میں انتہائی اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے یلو سٹون پارک میں بھیڑیے کو دوبارہ لا کر بسایا گیا جس کے بعد واضح طور پر ماحولیاتی نظام میں بہتری آئی اور وہاں بسنے والی تمام نسانوں کو فائدہ ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp