انڈیا کا سفیر واپس بھیجنے پر ردعمل: ’پاکستان کی وجوہات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں‘


بارڈر

انڈیا نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنائے جانے کے ردعمل میں پاکستان کی جانب سے سفارتی تعلقات محدود کرنے کے فیصلے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرِثانی کرے۔

پاکستان نے بدھ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ وہ انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرتے ہوئے، دو طرفہ تجارت معطل کر رہا ہے۔

انڈین وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان نے انڈیا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے بارے میں سفارتی تعلقات محدود کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے۔‘

بیان کے مطابق ’ان اقدامات کا مقصد دنیا کے سامنے دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں پریشان کن تصویر پیش کرنا ہے اور پاکستان کی جانب سے جو وجوہات بیان کی گئی ہیں وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘

انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’آرٹیکل 370 کے بارے میں اقدامات خالصتاً انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور جموں و کشمیر کے خطے کی ایک پریشان کن صورت پیش کرنا کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔‘

انڈیا کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ جموں و کشمیر کو ترقی کا موقع دینے کے لیے کیا گیا۔ ’حکومت اور پارلیمان کی جانب سے کیے جانے والے حالیہ فیصلے اس عزم کا مظہر ہیں کہ جموں و کشمیر کو ترقی کا موقع ملے جو کہ آئین میں ایک عارضی انتظام کی وجہ سے انھیں دستیاب نہیں تھا۔‘

انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فیصلے سے صنفی اور اقتصادی امتیاز کا بھی خاتمہ ہوگا اور معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔

بیان کے مطابق یہ حیران کن نہیں کہ اس قسم کے ترقیاتی اقدامات جو کہ جموں و کشمیر میں کسی بھی ناامیدی کو ختم کر سکتے ہیں، پاکستان منفی تناظر میں دیکھے کیونکہ وہ ان جذبات کو سرحد پار دہشت گردی کی توجیہ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

انڈین وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان کی جانب سے گذشتہ روز اعلان کردہ اقدامات پر افسوس کا اظہار کرتی ہے اور پاکستان پر زور دیتی ہے کہ وہ ان اقدامات کا جائزہ لے تاکہ سفارتی روابط کے عام راستوں کا تحفظ ہو سکے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے پانچ نکاتی اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو انڈیا کے یومِ آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

 

امریکہ کشمیر پر براہِ راست مذاکرات کا حامی

ادھر مریکہ نے پاکستان اور انڈیا کے مابین مسئلہ کشمیر پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے دونوں ممالک پر اس کشیدگی کے وقت میں پرامن اور تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔

بدھ کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری کیے گیے ایک بیان میں کہا گیا ہے ’ہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے تنازع سمیت دیگر غور طلب امور پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔‘

اس سے قبل امریکی قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے متعلق امریکہ کو آگاہ کرنے کی خبروں کی تردید کی تھی۔

امریکی دفتر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا کے ٹوئٹر اکاونٹ سے کی جانے والی ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ‘میڈیا رپورٹنگ کے برخلاف، انڈین حکومت نے امریکی حکومت کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بارے میں نا تو پہلے سے بتایا اور نا ہی اس حوالے سے کوئی مشاورت کی ہے۔’

اقوام متحدہ کا ردعمل

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کے لاک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت جو کچھ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہو رہا ہے، وہ پہلے بھی ایک رجحان تو تھا مگر اب ایک بالکل نئی سطح پر آ گیا ہے۔

انھوں نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی 8 جولائی 2019 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی حکومت سیاسی مخالفت کو کچلنے کے لیے بار بار ٹیلی کام نیٹ ورکس کی بندش، سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے، اور احتجاج اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے انتہائی طاقت کا استعمال جیسے اقدامات کر رہی ہے۔ جس سے نوبت سنگین زخموں اور ماورائے عدالت قتل تک پہنچتی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تازہ ترین پابندیوں سے وہاں انسانی حقوق کی صورتحال میں مزید بگاڑ کا خدشہ ہے۔

 

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرامن اجتماعات پر پابندی اور سیاسی رہنماؤں کی حراست سے جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے جمہوری بحث میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

اقوامِ متحدہ نے نشاندہی کی کہ شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر معلومات کے حصول اور آگے پھیلانے کو بنیادی حق تسلیم کرتے ہیں اور یہ کہ انڈیا اس چارٹر کا دستخط کنندہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کشمیر سے کسی بھی طرح کی معلومات کا باہر نہ آنا شدید تشویش کا باعث ہے۔

دیگر ممالک کا کیا کہنا ہے؟

پاکستان کے دوست ملک ملائشیا نے انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملائیشیا تمام شراکت داروں کو جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے حوالے سے زور دیتا ہے تاکہ عالمی امن برقرار رہے۔

ملائیشیا کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے خطے میں بڑھتی کشیدگی کی باعث ملائشیا کو جموں و کشمیر پر ہونے والے حالیہ اقدامات پر تشویش ہے۔ ملائشیا کے انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک سے دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک خطے میں استحکام، امن اور خوشحالی کے لیے تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔

ملائیشین دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملائیشیا ہمیشہ سے سمجھتا ہے کہ کشمیر کے طویل عرصے سے جاری تنازع کا پرامن اور احسن انداز میں حل دونوں ممالک میں مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

اقوام متحدہ

پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا

واضح رہے کہ مودی حکومت کی طرف سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ملائشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو ٹیلی فون کر کے ان سے انڈین حکومت کے اقدام کے خلاف پاکستان کی حمایت کرنے کی درخواست کی تھی۔

پاکستان کے ہمسایہ اسلامی ملک ایران نے بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بارے میں حالیہ اقدامات پر ردعمل دیتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کو ’پرامن‘ اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران انڈیا کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدام کا ’بغور جائزہ‘ لے رہا ہے

ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی اسنا کے مطابق ایران نے انڈیا اور پاکستان کو خطے کے امن اور عوام کے مفاد عامہ میں مذاکرات اور امن کا راستہ اپنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp