امریکہ میں سی پیک کا بوریا بسترا گول کرنے پر خوشی


سٹیو آرنون امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے مثبت سوچ رکھنے والے دانشور ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ امریکہ میں موجود پاکستانیوں سے زیادہ میل ملاپ نہیں رکھتے۔ ان سے میرے گزشتہ ڈھائی عشرے سے زیادہ پر محیط روابط ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری، ڈاکٹر رسول بخش رئیس، ڈاکٹر عباد راشدی اور میرا مسکن نیو یارک میں انہی کے پاس ہوتا ہے۔ اس لئے یہ یقین کی حد تک جانتا ہوں کہ وہ پاکستان سے ایک غیر معمولی انسیت رکھتے ہیں لیکن امریکی پاکستانیوں سے اجنبیت، میں نے سوال کر ڈالا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔

کہنے لگے کہ بات صاف ہے۔ امریکی پاکستانیوں کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ بھارت آپ کے ساتھ آزاد ہوا۔ جبکہ بنگلہ دیش تو پاکستان کے ساتھ، ایک کرب ناک حادثے کا نتیجہ ہے۔ لیکن بھارت کی کمیونٹی پاکستانی کمیونٹی سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔ آپ کو امریکی تھنک ٹینکوں میں بھارتیوں کی واضح تعداد نظر آئے گی۔ وہ ان اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔ امریکی ریاست کے ساتھ ان کا ایک تعلق صاف محسوس ہو گا لیکن پاکستانی اول تو ایسے اداروں میں اس تعداد میں موجود ہی نہیں۔ دوئم اگر کہیں موجود بھی ہیں تو اس کے باوجود وہ اسی کوشش میں مگن رہتے ہیں کہ کہیں کوئی دوسرا پاکستانی بھی اس ادارے میں نہ آ جائے۔

بھارتیوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنی کمیونٹی کی مدد کرتے ہیں۔ بنگلہ دیشی کوئی دو عشروں سے یہاں پر زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنے سرمائے سے چھوٹی چھوٹی کمپنیاں قائم کی ہیں جو بنگلہ دیشی شہریوں کو قرضے فراہم کرتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں بنگلہ دیشی ڈیپارٹمنٹل سٹور قائم کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ پاکستانی امریکی معاشرے سے جدا اور خود بھی جدا جدا نسل در نسل مزدور ہی بنتے چلے جا رہے ہیں۔ دل بہت کڑھتا ہے۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ میں ان کے ساتھ برنٹ آر رابن سے ملاقات کی غرض سے پہنچ چکا تھا۔ سٹیوآرنون تو مجھے ڈراپ کر کے چکے گئے۔ برنٹ رابن پاکستان، افغانستان پر امریکی حکومت کے سینئر مشیر رہے۔ نیو یارک یونیورسٹی کے سنٹر آن انٹرنیشنل کوآپریشن کے ڈائریکٹر اور سینئر فیلو ہے۔ پاکستان، افغانستان کے معاملات میں ان کی رائے کو امریکی پالیسی سازوں میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

گفتگو افغانستان اور پاکستان کے داخلی حالات، پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ حالت اور ان کے خطے پر اثرات پر ہوئی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ امریکہ میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حالات پر بھی ایک اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ غیر یقینی سیاسی صورتحال وطن عزیز کو غیر معمولی نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہے۔ اس کا اندازہ برنٹ رابن کی گفتگو سے واضح طور پر ہو رہا تھا۔

افغانستان سے امریکہ کامیابی کے نعرے لگاتا ہوا انخلاء یا کم از کم انخلاء کا تاثر قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ سب پاکستان کی مدد سے چاہتا ہے۔ مگر اس کی قیمت ادا نہیں کرنا چاہتا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے پاکستان کے موجودہ کرتا دھرتاؤ کو لالی پاپ دے کر رکھنا چاہتا ہے۔ ساتھ ساتھ ایف آے ٹی ایف اور دیگر طریقوں سے گھبراہٹ کا شکار بھی رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ایک گھبراہٹ امریکہ میں بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات سے لے کر سینٹ میں کی گئی حالیہ واردات تک یہ واضح کر رہا ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں بہت کچھ مصنوعی ہے اور مصنوعی شے بس ایک دھکے کی مار ہوتی ہے۔

پنجاب میں جیسے بڑے پیمانے پر مریم نواز عوام کو اپنے جلسے، ریلیوں میں نکال رہی ہے اور مولانا فضل الرحمن جو موڈ اپنائے ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔ اور اگر بازی پلٹ گئی تو ایسی صورت میں ان وعدوں کا کیا ہو گا جو انڈر ہینڈ موجودہ پاکستانی حکومت سے وہ لے چکے ہیں۔ کہیں افغان معاملہ ان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے اور یہ خیال بہت مضبوط ہے کہ موجودہ حکومتی نظام بہت کمزور ہے۔ کمزوری جہاں ان کے مفاد میں ہے وہیں پر خوف کا بھی باعث ہے۔

ایک امریکی سینیٹر سے ناشتے پر اسی موضوع پر گفتگو ہوئی۔ گفتگو انہوں نے بہت کھل کر کی اس لئے ہی نام پوشیدہ رکھنے کا کہا۔ پاکستان کا واحد مسئلہ سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کو بار بار نام نہاد جمہوریت میں تبدیل کر دینا ہے۔ اگر قانونی اعتبار اور کشمیریوں کے موڈ کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ پاکستان کا موقف بہت مضبوط ہے۔ لیکن جب ہم اپنی کمیونٹی اپنے لوگوں میں یہ بات کرتے ہیں تو اس وقت وہ جواب ایسا دیتے ہیں کہ سٹی گم ہو جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں رائے دہی نہ دینے والا بھارت جو بھی اپنا چہرہ سامنے لاتا ہے وہ منموہن سنگھ کی صورت میں ہو یا نریندر مودی کی اس کے بارے میں یہ طے ہوتا ہے کہ وہ بھارت کی غالب اکثریت کا نمائندہ بول رہا ہے۔ جبکہ آپ کی طرف سے صورتحال یہ ہے کہ قتل، پھانسی، جلا وطنی، قتل، جیل آپ کے حقیقی طور پر منتخب وزرائے اعظم کا اب تک مقدر رہا ہے۔ مضبوط سوچ ہے کہ کشمیر کو ایسے نظام کے سپرد کرنے کے لئے کوشش کرنا اس وقت تک بے مقصد ہے جب تک آپ جمہوریت میں بھارت کی سطح تک نہیں آجاتے۔

ہنستے ہوئے ایک پھبتی بھی کسی کہ پھر اس کے بعد آپ اپنے وزیر اعظم کو کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کی طرح سائیکل پر دفتر بھی بھیج دیجیے گا۔ ہم پاکستانیوں کے ہر طبقے کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ بھارت سے معاشی، دفاعی اور سفارتی مسابقت کے لئے شفاف سیاسی نظام جو عدم استحکام سے پاک ہو اور کسی بھی نوعیت کی غیر آئینی مداخلت سے محفوظ رہے، لازمی طور پر درکار ہے ورنہ ہم دن بدن کمزوری کی طرف ہی رواں دواں رہیں گے۔

اس کمزوری کو دور کرنے کی خاطر سی پیک کو بنانے کا عزم گزشتہ دورے حکومت میں کیا گیا تھا اور یہ عزم بھی امریکہ میں ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ بر وقت اپنی مکمل سپرٹ سے مکمل ہو جاتا تو ایسی صورت میں معاشی و دفاعی استحکام خود بخود ہماری جھولی میں آ گرتا۔ مگر اس کے لئے سیاسی استحکام کی ضرورت تھی۔ پہلے اس استحکام کو وطن عزیز سے رخصت کر دیا گیا۔ اور اب عملاً سی پیک کا بھی بھٹہ بٹھا دیا گیا جسے امریکہ اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ مگر وہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہے بلکہ سی پیک کے باضابطہ بوریا بسترا گول ہونے کے منتظر ہیں۔ اور ان کے حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اس حوالے سے بھی ہماری بات چیت مکمل ہو گئی ہے۔ بس آپ دیکھتے جائیں۔ اس دعوے کو حقیقت بننے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ یا یہاں بازی ہی پلٹ جاتی ہے۔ منتظر ہے نگاہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).