تجھ کو منظور ہے، یہ ہاتھ قلم ہو جائیں؟ ناقابل اشاعت کالم


قیام پاکستان کے چند برس بعد کراچی سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ مسلمان نے خبر لگادی کہ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے اپنی پرسنل سیکریٹری سے دوسری شادی رچا لی ہے۔ چونکہ ”مسلمان“ اخبار کا اپنا پرنٹنگ پریس نہ تھا اور کاپی تیار ہونے کے بعد اشاعت کے لئے جنگ پریس پہ جاتی تھی، جنگ کے ایڈیٹر میر خلیل الرحمان مرحوم نے اس خبر کی تصدیق کے لئے سیکریٹری اطلاعات ہاشم رضا کو ٹیلیفون کیا تو تھرتھلی مچ گئی۔ اخبار کی کاپیاں ضبط کرلی گئیں، روزنامہ مسلمان کے مدیر کو طلب کرکے بتایا گیا کہ اس خبر کی اشاعت پران کا نیوز پرنٹ کا کوٹا بند کیا جا رہا ہے۔

کاغذ دستیاب نہ ہونے کے سبب یہ اخبار چند ہفتوں میں بند ہوگیا مگر کچھ ماہ بعد غیر ملکی خبررساں ادارے ”رائٹر“ نے یہی خبر بریک کی تو سرکاری سطح پر اس شادی کا اعتراف کرلیا گیا۔ ضمیر نیازی نے بھی اپنی کتاب ”صحافت پابند سلاسل“ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ گویا آزادی کے بعد سب سے پہلے صحافت کو زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی گئی۔ تمام حکومتوں اور اداروں نے سنسرشپ کے نت نئے انداز متعارف کروائے۔ لیاقت علی خان کے دور میں ہی اظہاررائے کی آزادیاں محدود کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

”پبلک سکیورٹی اینڈ سیفٹی ایکٹ“ کا اجرا کیا گیا جس کے تحت کئی ہفت روزہ جرائد اور اخبارات بند کر دیے گئے۔ ”صحافت پابند سلاسل“ میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق ابراہیم جلیس نے ”پبلک سیفٹی ریزر“ کے نام سے ایک فکاہیہ مضمون لکھا جو نوائے وقت گروپ کے جریدے ”قندیل“ میں چھپ گیا۔ حمید نظامی مرحوم نے ابراہیم جلیس اور اس جریدے کے مدیر احمد بشیر کو طلب کیا اور کہا کہ یہ مضمون ادارے کی پالیسی کے خلاف ہے اس پر معذرت شائع کریں۔

انہو ں نے معذرت چھاپنے سے انکار کردیا تو دونوں کو نوکری سے نکال دیا گیا اور پھر حمید نظامی کی طرف سے معذرت شائع کی گئی۔ سنسرشپ کی اس قسم کو ”سیلف سنسرشپ“ کہا جاتا ہے جس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر ”پریس ایڈوائس“ کا دور آیا۔ بتایا جاتا کہ کیا شائع کرنا ہے اور کیا ناقابل اشاعت ہے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ اخبارات کی کاپیاں تیار ہونے کے بعد سرکاری دفاتر میں جاتیں وہاں سے بتایا جاتا کہ فلاں خبر یا کالم نکال دیں۔

ابتلا و آزمائش کے اس دور میں اظہار کے راستے تلاش کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا جو خبر اتارنے کا حکم ملے اس کی جگہ کوئی نئی خبر چپکانے کے بجائے وہ جگہ خالی چھوڑ دی جائے تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے یہ خبر سنسرشپ کی زد میں آگئی۔ مگرپھر حکم ملا کہ جگہ خالی نہ چھوڑی جائے۔ بعدازاں ایک نیا طریقہ دریافت ہوا، جس صحافی سے شکایت ہے اسے سبق سکھانے کے لئے نوکری سے نکلوا دیا جائے۔ جس اخبار سے گلہ ہے اس کے بنڈل جلا دیے جائیں اور جو نیوزچینل آپ کے اشاروں پر نہ چلے اسے کیبل پر بند کروا دیں۔

اسے ہماری بدقسمتی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ کم وبیش ہر شخص، ہرسیاسی جماعت، ہر ادارہ اورہر حکومت صحافیوں سے خفا رہتی ہے۔ میں نے کبھی اپنے کالم میں ذاتی دکھ درد بیان نہیں کیے اور نہ ہی کبھی ان خدشات و خطرات کا ذکر کیا ہے جن کا سامنا اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات شدید ترین دباؤ کا سامنا ہوتا ہے مگر شوقِ کمال اور خوفِ زوال سے بے پروا ہوکر جو ٹھیک سمجھتا ہوں وہی لکھتا چلا جاتا ہوں۔

مگر اب ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جسے بیان کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ مجھے ہی نہیں میرے اہل خانہ کے جان و مال کوبھی شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔ میں نے اپنا جائز اور قانونی حق استعمال کرنا چاہا مگر میری دادرسی نہیں ہوئی۔ متعلقہ پولیس اسٹیشن کو درپیش صورتحال سے آگاہ کرکے تحریری طور پر درخواست دی تو کارروائی کرنا تو درکنار میری درخواست وصول کرنے سے ہی انکار کردیا گیا۔ فرنٹ ڈیسک آفس سے بتایا گیا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کوئی درخواست متعلقہ افسران سے اجازت لئے بغیر وصول نہیں کی جا سکتی۔

ایس ایچ او، ایس پی اور دیگر حکام سے ٹیلیفون پر بات چیت کے بعد کہا گیا کہ ہم یہ درخواست نہیں لے سکتے۔ درخواست کا متن کچھ یوں ہے ”جناب اعلیٰ! مستغیث پیشے کے اعتبار سے صحافی ہے اور لاہور میں مقیم ہے جبکہ آبائی گھر راجہ رام (ظریف شہید) تحصیل شجاع آباد ضلع ملتان میں ہے۔ 30 جولائی 2019 ء بروز منگل صبح 11 بجے تین افراد میرے بڑے بھائی ماسٹر محمد صادق غوری کے پاس آئے اور بتایا کہ ان کا تعلق ایک حساس ادارے سے ہے۔

سفید رنگ کی ٹیوٹا کرولا کارجس کا نمبر RNS 9374 ہے، اس میں آنے والے افراد میں سے ایک شخص گاڑی میں ہی موجود رہا جبکہ دوافراد چل کر میرے بھائی کے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے خود کو انسپکٹر سہیل خان کے طور پر متعارف کروایا۔ پہلے تو انہوں نے یہ کہہ کر رعب جمانے کی کوشش کی کہ تمہاری ایک بہن بہاولپور میں رہتی ہے، دوسری بہن وکیل ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا، کیا آپ کو ریاستی اداروں سے کسی قسم کی کوئی شکایت ہے؟

بھائی نے جواب دیا جی نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارا بھائی اداروں کے خلاف کالم لکھتا ہے اور یوٹیوب پر بھی گالیاں دیتا ہے۔ اس پر بھائی نے جواب دیا کہ میں بھی پڑھتا اور سنتا ہوں انہوں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی۔ اس پر انسپکٹر سہیل نے کہا، اداروں کی مائیں بہنیں تو نہیں ہوتیں، مائیں بہنیں تومیری اور آپ کی ہوتی ہیں۔ اداروں پر تنقید کرنے کا مطلب ہی انہیں گالیاں دینا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا کہ آپ سلجھے ہوئے پڑھے لوگ ہیں، پاکستان کا جھنڈا لگایا ہوا ہے مطلب ملک سے محبت کرتے ہیں، اپنے بھائی کو سمجھائیں۔ اس کے بعد انہوں نے بھائی سے رابطہ نمبر مانگا جو انہوں نے دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صاحب آپ سے رابطہ کریں گے تو پھر آپ نے ہمارے دفتر ملتان آنا ہے۔

جناب اعلیٰ!

سائل قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والا ذمہ دار شہری ہے۔ خود کو ریاستی اہلکار کے طور پر ظاہر کرنے والے ان افراد نے میرے گھر پہنچ کر اہل خانہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے میری فیملی کے جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اگر کسی کو مستغیث سے کسی قسم کی کوئی شکایت ہے تو اس کے لئے متعلقہ ادارے اور فورم موجود ہیں، یوں کسی کی فیملی سے متعلق معلومات عام کرنا اور انہیں دھمکانا کسی طور جائز نہیں۔ براہ کرم اس حوالے سے ضروری کارروائی کرکے سائل اور اس کے اہلخانہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ ”

جیسا کہ اس درخواست میں لکھا گیا ہے کہ اگر کسی کو کسی قسم کی کوئی شکایت ہے تو اس کے لئے قانونی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی بھی ادارہ جو آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کر رہا ہو، اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ جب تک یہ معاملات میری ذات تک محدود رہے، میں نے خاموشی اختیار کیے رکھی مگر میری فیملی کو ہراساں کیا گیا تو ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں نے پنجاب پولیس کے آن لائن کمپلین سسٹم کے تحت اپنی شکایت درج کروادی ہے جس کا نمبر 1927002 ہے۔ جبکہ درخواست کی کاپی متعلقہ ایس ایچ او، سی پی اواور دیگر حکام کو رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھجوادی ہے۔ مگر جب خوف کا یہ عالم ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کی درخواست لینے سے انکار کردیں تو پھر ۔۔۔ کیا یہ تیغ اپنے ہی لہو میں نیام ہوتی رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri