وار اکانومی کا ایک اور پھندہ ؟


کرنے کو لکھنے کو بہت سے ادھورے کام دہائی دے رہے ہیں مگر دل مانتا ہی نھیں۔ اک عجب ملال نے گھیر رکھا ہے غم و غصہ اجازت نہیں دیتے اور پابند سلاسل کرتے ہیں کہ بات صرف اسی موضوع پہ ہے، بات 370 اور 35 اے کی ہو۔ مگر پھر مزید بددلی چھا جاتی ہے کیا فائدہ۔ جب سے یہ مدعا تازہ ہوا ہے ہر طرف اتنی چیخ و پکار اور واویلا ہو چکا کہ یہ سب کچھ سب کو شاید ازبر ہو چکا ہو۔ ازبر ہو چکا تو بھی ہم نے کون سا تیر مار لیا۔

پھر کچھ لکھنے کی کوشش کرتی ہوں تو بددلی قلم تھام لیتی ہے۔ اتنے بڑے سمندر میں اس معمولی سے کنکر پھینکنے سے کیا ہوگا بھلا۔ وہ جو اتنے لوگ لکھ رہے ہیں، دہائی دے رہے ہیں، سوشل میڈیا لاشوں اور ظلم و جبر کی جیتی جاگتی تصویروں سے بھرا پڑا ہے تو کیا فرق پڑا؟ کیا کچھ ہوا؟ پھر خود سے پوچھتی ہوں کیا خاموشی لاتعلقی اس مسئلے کا حل ہے، یقیناً نہیں ہے۔ مگر اس ہنگامی موسم میں ہماری اسمبلیوں سے لے کر ہمارا الیکٹرانک میڈیا جس انتشار کا شکار ہے سچ یہی ہے کہ عوام الناس میں اس سے بددلی مایوسی اور لاتعلقی ہی جنم لے گی۔

ہمارا وزیر اعظم وہ روبوٹ ہے جس کی پروگرامنگ صرف کرپشن والی ڈسک پہ کی گئی ہے، آپ کی میری جنریشن نے وہ ٹیپ ریکارڈر ضرور دیکھے ہوں گے جن میں کیسٹ کی ریل پھنس جایا کرتی تھی اور ایک مخصوص گانے یا تال پہ آکر رک جایا کرتی تھی سو یہاں بھی یہی حال ہے۔ وہاں وہی ٹیپ چل رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام پارٹیز کو تمام تر اختلافات بھلا کر اس وقت یکجا کیا جاتا اور ہنگامی بنیادوں پہ اس ایشو کو ہینڈل کیا جاتا مگر ہمارا اسمبلی اجلاس حسب معمول مچھلی بازار رہا۔

ہمارا میڈیا بھی اپنے تمام مشاغل میں مصروف ہے، کسی چینل پہ کوئی صوفی صاحب جنات کی بستیوں اور پراسرار قوتوں پہ معزز مہمانوں سے بحث کررہے تھے، کسی پہ حسب معمول اپوزیشن کی غداری و کرپشن کی بین بج رہی تھی۔ نیچے کشمیر مدعے پہ پٹیاں چلا کر فریضہ ادا ہورہا تھا۔ ایسے میں مجھ جیسے لوگوں کے پاس صرف کیوں اور کیا کی آپشن بچتی ہے۔ سو سوال یہ ہے کہ ستر برسوں میں جو نہ کیا گیا وہ اب کرنے کی ہمت کہاں سے آئی؟ کیا ہماری مقتدرہ کے ”کامیاب“ دورہ امریکہ کے بعد یہ منسوخی بہت معنی خیزنہیں ہے؟

کیا ہم ایسی کوئی پابندی قبول کر کے آئے ہیں؟ کیا حافظ سعید کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی؟ کیا اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ایک متنازعہ سرزمین جس میں تین ممالک فریق ہیں، کو کوئی ایک ملک اپنا من پسند حل تھوپ کر ہڑپ کرسکتا ہے؟ اور کیا اقوام عالم خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ دنیا کو ایک نئی جنگ کا ایندھن بننے دیں گے؟ کیا ہم دو غریب ترقی پزیر ملک جنگ کے لیے تیار ہیں؟ کتنے روز کی جنگ کے لیے؟

اور کتنے دن بعد پھر دوبارہ ہم ٹیبل پہ آئیں گے؟ کیا چین ب، شمول باقی سٹیک ہولڈرز کے، اس کو ہضم کرلے گا؟ کیا ہندوستان کی حماقت نے ہمیں دوبارہ اپنے پتے دانش سے کھیلنے کا موقع فراہم نہیں کر دیا؟ کیا یہ موقع نہیں کہ چین سے تعلقات باہم مفادات پہ ازسرنو بحال کر لیے جائیں گر بیک ڈور ڈیپلومیسی کے تحت کچھ ایسانہیں مان لیا گیا جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے تو کیا جو کچھ ہورہا ہے یہ سب سکرپٹ رائیٹنگ کے تحت ہورہا ہے؟

یہی 35 اے جس کو بی جے پی نے دو سال پہلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، آج اچانک کس غرور و زعم۔ یا پھر یقین دہانی پہ ختم کردیا؟ کیا مودی نے اپنے پیروں پہ خود کلہاڑی ماری ہے؟ کیا یہ وار اکانومی کا کوئی گندا مکروہ نیا سنٹٹ ہے؟ کیا ہم اس جھانسے میں آگئے ہیں کہ عالمی قوتیں بشمول ہماری اور بھارتی مقتدرہ کے کسی حل کی طرف جارہے ہیں؟ تو پھر ”آؤ جنگ جنگ کھیلتے ہیں“ نامی کھیل کا کیا ہوگا؟ اور حرف آخر یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی رضامندی کے بغیر ان شقوں کی منسوخی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس عید قربان کے لیے ہم نے واقعی سنت ابراہیمی ادا کرنے کے لیے کشمیری بیٹے چنے ہیں اور اس کے بعد خاک و خون کی گرد چھٹے گی تو منظر نامہ عالمی قوتوں کی منشا کے مطابق ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).