سیسے کا زہر: کیا پانی ہمیں کند ذہن بنا رہا ہے؟


”میرا بچہ روتا رہتا ہے۔ کمزوری رہتی ہے۔ چھوٹا تھا تو مٹی کھاتا تھا۔ بھوک نہیں لگتی۔ کبھی پیٹ درد ہوتی ہے اور کبھی قبض ہو جاتی ہے۔ سکول میں استاد تنگ ہیں کہ توجہ نہیں کرتا۔ کچھ خون کی کمی بھی رہتی ہے اگر چہ ہم تو اسے مار مار کر بھی کھلاتے ہیں۔ پڑھائی میں بھی پیچھے رہ گیا، پتہ نہیں اس کا کیا بنے گا؟ کئی مرتبہ پٹائی بھی کی ہے لیکن یہ تو سیدھا ہونے کا نام نہیں لیتا۔“ یہ کہانی آپ کو پاکستان کے ہر صوبے ہر شہر ہر گاؤں ہر محلے میں سننے کو ملے گی۔

والدین مار مار کر بچے کا بھرکس نکالتے رہیں گے لیکن بہت کم لوگ سوچیں گے کہ اس کی کوئی طبی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ اور ایسا مختلف وجوہات کی بناء پر ہو سکتا ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور جسم میں آئرن کی کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ دونوں اس قسم کی علامات کی سب سے عام وجوہات ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ جسم میں Lead یعنی سیسہ کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ اور یہ سیسہ اس کے جسم میں زہر کا کام کر رہا ہے۔ جسم میں یہ زہر کہاں سے آیا؟ ہو سکتا ہے پانی میں سیسے کی زیادہ مقدار موجود ہو۔ ہو سکتا ہے بچہ دیواروں سے کھرچ کر پینٹ کھاتا ہو اور اس پینٹ میں سیسہ زیا دہ مقدار میں موجود ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سبزیوں میں اس کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہو۔

ایک وقت تھا کہ دنیا میں اس مسئلہ کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ اگر خون میں سیسے کی مقدار 20 ug/dl تک بھی چلی گئی تو خیر ہے۔ اگر اس کی زہر خوارانی کی علامات ظاہر ہوئی تو علاج کر لیں گے۔ لیکن پھر تحقیق نے ثابت کیا کہ اگر خون میں اس سے بہت کم مقدار بھی موجود ہو توفوری علامات تو ظاہر نہیں ہوتیں لیکن بچے کے ذہن پر اور اس کے مزاج پر اثر پڑتا رہتا ہے وہ چڑ چڑا اور کند ذہن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ 2005 میں امریکی ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ 10 ug/dl سے اوپر سطح کو پریشان کن سمجھا جائے اور یہ انتظام کیاجائے کہ اس کے جسم میں مزید سیسہ داخل نہ ہو۔ پھر 2012 میں اس سطح کو مزید نیچے لا کر 5 ug/dlکر دیا گیا۔ لیکن اب یہ نظریہ سامنے آ رہا ہے کہ خون میں اس کی اس سے کم سطح کو بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا۔

(Prevention of lead toxicity by AAP, PEDIATRICS Volume 1 38, number 1 , July 2016)

سیسے کی زہر خورانی سے خاص طور پر بچوں کو بچانے کے لئے پٹرول کے اندر سیسے کی آمیزش پر پابندی لگادی گئی اور پاکستان میں بھی 2001 میں ایسے پٹرول کے استعمال پر پابندی لگائی گئی۔ اس مرحلہ کے بعد یہ سوال اُٹھا کہ پینے کے پانی میں سیسے کی مقدار ایک خاص سطح سے زیادہ نہ ہو تاکہ بچوں کے دماغ کو نقصان نہ پہنچے۔

اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ ہمارا مسئلہ ہے کہ نہیں؟ اس سلسلہ میں آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے 2008 میں ایک تجزیہ پیش کیا جس میں مختلف تحقیقات کو اکٹھا کر کے جائزہ لیا گیا تھا۔ اس کے مطابق آلودہ پٹرول پر پابندی کے بعد پاکستان میں لوگوں کے خون میں سیسہ کی موجودگی کافی کم ہوئی ہے لیکن اب بھی بہت سے لوگوں میں یہ مناسب حدود سے بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے۔ اور یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے پاکستان کے مختلف حصوں میں پانی اور مٹی میں سیسے کی کس قدر آلودگی پائی جاتی ہے۔ یہ سراغ لگانے کی ضرورت تھی کہ اب یہ زہر کہاں سے آکر ہمارے جسم میں شامل ہو رہا ہے؟

( Concentration Level of Lead (Pb) in Plants and Soil of Faisalabad Irrigated with Waste Water (2017). Applied Science Reports, Vol. 20, No. 3, 2017. )

بڑے شہروں میں گھروں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا گندہ پانی سبزیوں کو پانی دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر بغیر صاف کیے ایسے پانی کو استعمال کیا جائے تواس کے بارے میں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس میں سیسہ اور دوسری دھاتوں کی مقدار نقصان دہ حد تک زیادہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے اس پر تحقیق کی جس کے نتیجہ میں یہ سامنے آیا کہ فیصل آباد اور اس کے نواح میں ایسے پانی میں سیسہ زیادہ پایا جاتا ہے اور پھر یہ سیسہ مٹی میں جمع ہو جاتا ہے۔ اور ایسے پانی کی آب پاشی سے جن سبزیوں کو اُگایا جاتا ہے، ان میں سیسہ خطرناک حد تک زیادہ پایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم جو سبزیاں شوق سے کھا رہے ہیں ان میں سیسہ کی خطرناک مقدار پائی جاتی ہو۔
( Concentration Level of Lead (Pb) in Plants and Soil of Faisalabad Irrigated with Waste Water ( 2017 ) ۔ Applied Science Reports، Vol۔ 20، No۔ 3، 2017۔ )

اب حال ہی میں عبد السلام ریسرچ فورم نے جاپانی سائنسدانوں کی مدد سے اس تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔ اور ضلع چنیوٹ سے ایسے پانی کے نمونے جمع کیے جسے پینے اور کھانے کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تجزیے سے یہ انکشاف ہوا کہ ان مقامات کے پانی میں سیسے کی مقدار ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی مقرر کردہ محفوظ سطح سے بیس سے تیس گنا زیادہ ہے۔ یعنی بہت ہی زیادہ تھی۔ اور اس کے نتیجے میں بچوں کے خون میں سیسے کی مقدار بڑھ رہی ہے۔

(Water Contamination issues of Kirana Hill Region& Treatment Techniques p 55 )

یہ تحقیقات تو سامنے آ رہی ہیں لیکن ان کا فائدہ ہمیں تبھی ہے جب ان سے فائدہ اُٹھا کر ہم اس مسئلے کو حل کریں۔اورلوگوں کو یہ معلومات مہیا کی جائیں۔ ورنہ اس کا فوری نقصان تو نظر نہیں آتا، بس آہستہ آہستہ اپنے شکار کو کند ذہن کرتا جاتا ہے۔ جن کے خون میں سیسے کی مقدار زیادہ ہو جائے ان کے ذہن اپنی بھرپور صلاحیتوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس کا حل یہ ہے کہ پانی کو اس قسم کی آلودگی سے پاک کرنے کے فلٹر ہوتے ہیں۔ ایسے فلٹڑ سستے مہیا کیے جائیں۔ پانی میں سیسے کی مقدار کو ماپنے کا وسیع پیمانے پر سستا انتظام کیا جائے تاکہ لوگ اپنے پینے کے پانی کے متعلق یہ تسلی کر سکیں کہ ان میں سیسے کی خطرناک مقدار تو نہیں پائی جاتی۔

خون میں سیسے کی مقدار کا تجزیہ کرنے کے ٹسٹ بہت مہنگا ہو رہا ہے۔ یہ ٹسٹ کروانے کی سستی سہولت مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ جن بچوں میں اس قسم کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں کہیں ان کے خون میں سیسے کی مقدار تو نہیں بڑھ رہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کچھ دیر کے لئے ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر اس قسم کے بنیادی مسائل پر بھی کچھ توجہ دیں تاکہ کم از کم آئندہ نسلوں کے ذہنوں کو تو بچایا جا سکے۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی کسی پر ظلم ہو تو ہم ٹائر جلا کر سڑکوں کو بند کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی گاڑیوں کے شیشے توڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے بچے تو سب سے زیادہ ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).