سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ: متاثرین آج بھی حکومتی وعدوں کے پورے ہونے کے منتظر


کوئٹہ

امان اللہ لانگو ان 53 وکلا میں شامل تھے جو 8 اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والے خود کش حملے میں مارے گئے تھے (فائل فوٹو)

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی زینب اور مزمل بہت چھوٹے تھے جب وہ اپنے والد کی شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔

ان کے والد امان اللہ لانگو وکیل تھے۔ وہ 8 اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والے خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔

اس وقت زینب کی عمر بمشکل تین سال جبکہ ان کا بھائی مزمل دو سال کا تھا۔

زینب کو اپنے والد کتنے یاد ہیں اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’ابو میرے لیے کھلونے لایا کرتے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’سو میں سے پانچ کی مشکل سے شناخت ہوتی ہے‘

’سانحہ آٹھ اگست میں وکلا کی پوری نسل ہلاک ہوئی‘

مستونگ دھماکہ: ’تین بیٹے دیکھنے گئے تھے، تینوں مارے گئے‘

8 اگست کو پیش آنے والے اس سانحے نے کئی وکیلوں کے گھر اجاڑ دیے تھے۔ زینب اور مزمل کا گھر ان گھروں میں شامل ہے جو اس سانحے سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔

والد کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد زینب اور مزمل کے دادا کو فالج ہوگیا جبکہ اس گھرانے کی معاش کا انحصار پکوڑوں کی ایک چھوٹی سی دکان پر ہے۔

زینب کے چچا مقصود کہتے ہیں کہ امان اللہ ایڈووکیٹ ان کے خاندان کے واحد کفیل تھے۔

کوئٹہ

امان اللہ لانگو کی ہلاکت کے چند ہی روز بعد ان کے والد پر فالج کا حملہ ہو گیا تھا

انھوں نے بتایا کہ چھوٹی سی دکان سے جو آمدنی ہوتی ہے اس سے ان کا بمشکل گزارا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد ان کا خاندان جس طرح متاثر ہوا اس کے باعث اب ہر دن ان کے لیے سانحہ 8 اگست سے کم نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ مارے جانے والے وکیلوں کے خاندانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر خاندان میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت فراہم کی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ تین برسوں کے دوران کئی بار ہائی کورٹ میں وکلا کے پاس اپنی درخواست جمع کرائی لیکن نوکری نہیں ملی۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے ہلاک ہونے والے ہر وکیل کے خاندان کو ایک، ایک کروڑ معاوضہ دیا گیا اور یہ رقم بیوہ اور بچوں کے نام پر بینکوں میں جمع کرائی گئی تھی۔

اس حوالے سے جو شرائط طے کی گئی تھیں ان کے مطابق رقم ہلاک ہونے والے وکیل کے بچے اس وقت استعمال کریں گے جب وہ بالغ ہوجائیں گے تاہم بلوغت تک بچوں کو ان کا منافع ملے گا۔

کوئٹہ

امان اللہ لانگو کا گھر ان کے خاندان کی کسمپرسی کی داستان بیان کر رہا ہے

مقصود کے بقول انھوں نے ابھی تک ان پیسوں کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ یہ پیسے ان کے بھائی کے بچوں کے ہیں اور جب وہ بڑے ہوں گے تو ان کو خود استعمال کریں گے۔

ملتی جلتی کہانیاں

یہ کہانی صرف امان اللہ ایڈووکیٹ کے خاندان کی نہیں بلکہ اس سانحے میں مارے جانے والے محمد ایوب ایڈووکیٹ کا خاندان بھی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔

ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور پانچ بچے ہیں اور وہ خاندان کے واحد کفیل تھے۔

محمد ایوب کی والدہ بی بی شرف خاتون نے بتایا کہ حکومت نے ان کو جو ایک کروڑ روپے فراہم کیے تھے ان کا صرف ابھی تک وکیل کے بچوں کو منافع مل رہا ہے جو کبھی مہینے میں 20 ہزار اور کبھی 22 ہزار روپے بنتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے بعد ان کے پاس جو تھوڑی بہت رقم بچ جاتی ہے ان سے اس مہنگائی کے دور میں چینی اور آٹا ہی خریدا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ گھر ان کا اپنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر گھر کرائے پر ہوتا تو ان کا برا حشر ہوتا۔

اس سانحے میں مجموعی طور پر 53 وکلا سمیت 65 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

زخمیوں میں سے اکثریت وکیلوں کی تھی جن میں خواتین وکلا بھی شامل تھیں۔

زخمی ہونے والی خواتین میں عندلیب قیصرانی ایڈووکیٹ بھی شامل تھیں جو کہ اب سہارے کے بغیر آسانی کے ساتھ چل پھر نہیں سکتیں۔

کوئٹہ

عندلیب قیصرانی ایڈووکیٹ اس حملے میں زخمی ہوئی تھیں اور اب وہ چھڑی کے سہارے سے چلتی پھرتی ہیں

وہ آج بھی جب اس سانحے میں مارے جانے والے اپنے ساتھیوں کو یاد کرتی ہیں تو اپنے آنسوﺅں پر قابو نہیں رکھ سکتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ کبھی بھی بچھڑنے والے ساتھیوں کو نہیں بھلا سکتی ہیں۔

ان وکلا کو 8 اگست 2016 کو اس وقت خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جب وکلا کی ایک بڑی تعداد سول ہسپتال میں جمع تھی۔

اس روز وکلا بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کی ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں ہلاکت کے بعد سول ہسپتال میں جمع تھے۔

اس واقعے کو سیاسی حلقے اور وکلا کی تنظیمیں سنہ 1935 کے زلزلے کے بعد دوسرا بڑا نقصان قرار دیتی ہیں۔

وعدے جو وفا نہ ہو پائے

چونکہ بلوچستان کے پریکٹس کرنے والے سینئر وکلا کی ایک بڑی تعداد اس واقعے میں ہلاک ہوئی تھی اس کے پیش نظر وکلا تنظیموں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ حکومت سو وکلا کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجے۔

جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ حکومت نے سو وکلا کو بیرون ملک بھیجنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ابھی تک ان میں سے صرف آٹھ کو بھیجا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بیوروکریسی اب مزید وکلا کو بھیجنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔‘

اس سانحے کے بعد ہلاک ہونے والے وکلا کے لواحقین اور زخمی ہونے والے وکلا کو معاوضے کی فراہمی کے لیے وکلا تنظیموں نے متعدد مطالبات پیش کیے تھے۔

بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر شاہ محمد جتوئی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان میں سے دو مطالبات پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ جن مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا ان میں سے ایک ہلاک ہونے والے ہر وکیل کے خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت فراہم کرنے کا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ سرکاری حکام کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ زخمی وکلا کا علاج مکمل ہونے تک ان کے علاج کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

تعزیتی ریفرنس

اس سانحے میں مجموعی طور پر 53 وکلا سمیت 65 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ شروع میں زخمی وکلا کے علاج کے لیے پیسے دیے گئے لیکن بہت سارے وکلا ابھی تک جو علاج کرا رہے ہیں وہ اپنی جیب سے کرا رہے ہیں۔

تحقیقات اور حکومتی موقف

اس سانحے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن بنایا گیا تھا جس نے ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے متعدد سفارشات پیش کی تھیں۔

اگرچہ وکلا تنظیمیں یہ شکایت کر رہی ہیں کہ اس سانحے کے حوالے سے بعض مطالبات تسلیم نہیں ہوئے لیکن سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے دستیاب وسائل میں ہلاک ہونے والے وکلا کے خاندانوں اور زخمی وکلا کی ہر ممکن مدد کی ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ مارے جانے والے وکلا کے لواحقین اور زخمی وکلا کو معاوضوں کی ادائیگی کے علاوہ حکومت ہلاک ہونے والے وکلا کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات دے رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اسی طرح نوجوان وکلا کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وکلا کے خاندانوں اور نوجوان وکلا کی تعلیم کے لیے موجودہ بجٹ میں 500 ملین کا ایک فنڈ بھی موجودہ بجٹ میں قائم کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’وکلا ہمارے ہیں، ان کے جو بھی مسائل ہیں حکومت ان کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp