پاکستان کی ایک بیٹی امریکہ میں


مجھے اچانک پاکستان جانا پڑگیا۔ امی کا فون آیا تھا، ابو سخت بیمار ہیں، ہسپتال میں داخل ہیں، جتنی جلد آسکتی ہو آجاؤ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا، گھبرائی ہوئی اپنے یہودی پروفیسر کے پاس پہنچی۔ میری چھٹیاں تو نہیں تھیں مگر جانا تو تھا، اگر نوکری بھی چھوڑنی پڑجاتی تو میں چھوڑ دیتی۔ اس تمام محنت، عزت، دولت، کمائی کا فائدہ کیا ہے اگر وقت پر ماں باپ بھائی بہن کے اچھے میں نہ ہوں تو کم از کم برے میں تو ہوں۔

پروفیسر مارک شلٹنربرگ میرے پروفیسر تھے۔ غور سے میری بات سن کر بولے، ”شیور وائی ناٹ۔ اگر تمہارے باپ کی طبیعت خراب ہے تو تمہیں فوراً جانا چاہیے۔ تمہاری چھٹی ہے جاؤ۔ جب تک رہنا پڑے رہنا بٹ کیپ می پوسٹڈ ول یو؟ “

میں دس سال سے امریکا میں تھی۔ کراچی یونیورسٹی سے بائیوکیمسٹری میں ماسٹرز کرنے کے بعد مجھے امریکا کے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ایک اسکالر شپ مل گئی تھی۔ ابو امی دونوں ہی خلاف تھے کہ میں بغیر شادی کے تن تنہا امریکا جاؤں مگر خدا بھلا کرے کراچی میں میرے پروفیسر کا، وہ خود گھر آگئے، ابو کو سمجھایا کہ اس سے اچھا موقع کبھ بھی نہیں ملے گا۔ وہ خود اس یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے تھے اور ان کے ہی نامزد کرنے پر میری درخواست کو دیکھا گیا۔

میرا فون پہ بھی انٹرویو ہوا اور یو ایس ایڈ کے ایک پروگرام کے تحت مجھے یہ وظیفہ دے دیا گیا۔ بعد میں انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میری امی کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر لڑکی امریکا چلی جائے گی تو بہت سے لڑکوں کے باپ رشتہ بھی لے کر آجائیں گے۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ دیکھو اس بات پہ تو اجازت مل ہی جائے گی۔ انہوں نے سچ ہی کہا تھا۔

بہت سوچ بچار کے بعد مجھے گھر سے اجازت مل گئی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اِدھر میں امریکا آنے کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی اُدھر ماموں جان ذیشان کا رشتہ بھی لے کر آگئے۔ ذیشان ماموں جان کے بچپن کے دوست کے بیٹے تھے اور بہت دنوں سے امریکا میں تھے اور واشنگٹن کے قریب ہی ورجینا اسٹیٹ میں ایک کمپیوٹر کی کمپنی میں کام کررہے تھے۔

یہ معلوم ہونے کے بعد، ذیشان شریف آدمی ہیں اورامریکا سے بھی ابو کے ایک دوست نے پتا کرکے بتایا کہ جہاں تک ذیشان کے دوستوں سے پتا لگا ہے انہوں نے یہاں کوئی شادی وادی بھی نہیں کی ہے۔ امریکن قومیت بھی کسی پیپر میرج کے طفیل نہیں بلکہ امریکا میں مقررہ میعاد ختم ہونے کے بعد گرین کارڈ اور پھر امریکی پاسپورٹ ملا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کمپیوٹر کا نیا نیا غلغلہ اٹھا تھا اور پاکستان سے تو کم مگر ہندوستان سے کمپیوٹر کی شدبد رکھنے والے ہزارہا لوگ امریکا چلے گئے تھے۔

ان کے لیے قانون میں نرمی کردی گئی تھی اور جس کی بھی امریکا میں ضرورت تھی اسے نہ صرف یہ کہ نوکری دی گئی بلکہ اپنا شہری بھی بنالیا گیا تھا۔ امریکن قوانین ضرورت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی پتھر کی لکیر نہیں کہ مٹ ہی نہ سکے۔ کوئی بھی ایسی دیوار نہیں کہ گر ہی نہ سکے۔ ضرورت کے مطابق آگے پیچھے، اوپر نیچے سب کچھ ہوسکتا ہے۔

سب کچھ یکایک اور ابو امی کی مرضی کے مطابق ہوگیا۔ میں اکلوتی بیٹی تھی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکا ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں گی۔ اس اسکالر شپ کے ملنے کے بعد بھی میرا یہی پروگرام تھا کہ تعلیم اور تربیت مکمل کرکے واپس پاکستان آجاؤں گی مگر شاید وقت اور قسمت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ انسان صرف پروگرام بناتا ہے اور کہیں پر کوئی اور نادیدہ طاقتیں کچھ اور فیصلے کرتی ہیں، اچھی یا بری، بھلی یا خراب، عارضی یا مستقل۔ لوگ کہتے ہیں یہ تو ستاروں اور ہاتھ کی لکیروں کے گورکھ دھندے ہیں۔ کون جانے؟

سب کچھ جلدی جلدی ہوگیا۔ منگنی، مہندی، بارات، نکاح، رخصتی، ولیمہ اور میں ذیشان کی دلہن بن کر ابو امی کے پاس سے ذیشان کے گھر پی ای سی ایچ سوسائٹی میں آئی جہاں سے ہم دونوں امریکا ساتھ آگئے تھے۔

تھوڑے ہی دنوں میں ذیشان کو بھی یونیورسٹی کے قریب ایک اور کمپنی میں نوکری مل گئی اور ہم لوگوں نے یونیورسٹی کے پاس ہی مکان لے لیا۔ ذیشان بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے۔ میں نے ان کے تعاون کی وجہ سے بہت کام کیا۔ جلد ہی مجھے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ امریکا میں پی ایچ ڈی آسان کام نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی پی ایچ ڈی نہیں ہے جس میں پروفیسر کا بیگ اٹھانا ہے، اس کی گاڑی کے دروازے کو کھول کر کھڑا ہونا ہے، اس کے بچے کی سالگرہ میں حیثیت سے بڑھ کر تحفہ دینا ہے اور اس کی ناجائز باتوں کی تعریف اور اس کے کھوکھلے لطیفوں پر ہنسنا ہوتا ہے، اس کے ٹیلی فون کے بل ادا کرنے ہوتے ہیں، اس کے بجلی کے مسائل کو سلجھانا پڑتا ہے، اس کی ہاں میں ہاں ملانی ہوتی ہے، اس کی نہ میں نہ کہنا ہوتا ہے۔

یہاں پی ایچ ڈی نہیں دی جاتی ہے، غلام بنائے جاتے ہیں۔ ایسے غلام جو موقع ملتے ہی مالک کا گلا کاٹ دیتے ہیں۔ میری تو یہی سمجھ میں آیا تھا۔ مجھے جو وظیفہ مل رہا تھا وہ میری ضرورتوں سے کہیں زیادہ تھا لیکن اگر ذیشان کی پرزور حمایت نہیں ہوتی تو میں کبھی بھی پی ایچ ڈی کر ہی نہیں سکتی تھی۔ دن دن بھر کام، شام کو دیر سے آنا، ہفتہ اتوار کو بھی کبھی کبھی لائبریری جانا، گھر میں گھنٹوں کمپیوٹر سے سر پھوڑنا۔ ذیشان نے ہر طرح میری مدد کی بلکہ کمپیوٹر پہ میرے لیے خود بھی سرچ کرتے رہے تھے۔ میرے تھیسس کے لیے نجانے کہاں کہاں سے میٹریل جمع کیا گیا۔ انہیں بار بار خود بھی اور میرے کہنے پہ بھی اچھے سے اچھا بنا کر لکھا تھا۔ نجانے کن دعاؤں کا اثر تھا کہ مجھے ایک شریف آدمی شوہر کی حیثیت سے ملا۔ میں ہر وقت اوپر والے کی احسان مند تھی، بہت کرم کیا تھا مجھ پہ اس نے۔

پروفیسر شلٹنر بایو کیمسٹری کا مانا ہوا پروفیسر تھا۔ ہمارے اس ڈپارٹمنٹ کو مالیکیول کی ساخت اور اس کے اندر مختلف قوتوں کے باہمی ارتکاز کے فارمولوں کو دریافت کرنے پر نوبل پرائز بھی مل چکا تھا۔ یہ ماں باپ کی دعائیں تھیں اور کچھ قسمت کا کھیل کہ میری جیسی معمولی پڑھی لکھی لڑکی کو یہ وظیفہ مل گیا۔ میں جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر کرتی وہ کم تھا۔ نجانے کس نیکی کے بدلے میں مجھے میرے مالک نے اس قابل سمجھا۔

واشنگٹن میں گزرا ہوا ایک ایک دن میرے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس ہے، امریکی کانگریس ہے، سنیٹ ہے، سرکاری دفاتر ہیں، ورلڈ بینک کی عمارتیں ہیں، آئی ایم ایف کا آفس ہے، دنیا بھر کی ہر طرح کی تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ مگر ان سے بھی زیادہ اہم واشنگٹن میں طرح طرح کے میوزیم ہیں۔ زندگی کی دریافت سے لے کر انسان کے ارتقا کا میوزیم جہاں دنیا بھر سے تلاش کرکے مختلف جانوروں کے ڈھانچے جمع کرکے ہزاروں کی تعداد میں سجادیے گئے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سمندر میں زندگی کا آغاز ایک حلیے سے ہوا، کس طرح زمین پہ مختلف نظام رکھنے والے چرند، پرند، درخت، کیڑے مکوڑے، بیکٹیریا، وائرس اور فنگس بنتے چلے گئے۔ کروڑوں اربوں سالوں کا یہ عمل بڑے شاندار طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ میں نے دیکھا اور حیران ہوگئی تھی اوپر والے کی حکمت پہ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5