ایٹم بم ایک اشارہ ہی تو ہے


بچ جانے والے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 جنوری 1972 ء کو ملتان میں پاکستان کے چیدہ چیدہ سائنس دانوں کا اجلاس بلایا اور اُن کی توجہ اِس طرف دلائی۔ کچھ محققین کے نزدیک پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کا خیال سب سے پہلے صدر جنرل محمد ایوب خان کو آیا تھا۔ اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو انہی کی کیبنٹ میں وزیر تھے۔ تاہم پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر باقاعدہ کام 1974 ء میں شروع ہوا۔

پاکستان کے لیے ایٹم بم کی کہانی کے ابتدائی آئیڈیے سے لے کر عملی ٹیسٹ تک گفتگو میں بظاہر جذباتی نکات کا سہارا لیا جاتا رہا۔ موجودہ زمانہ اہم فیصلوں میں جذبات کی بجائے منطقی دلائل کو اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بارے میں منطقی دلائل کو ہی زیر بحث لانا چاہیے۔ ملٹری حکمت عملی اور قومی سلامتی کی تھیوری میں ”میوچل اَشورڈ ڈسٹرکشن“ یعنی ”یقینی باہمی تباہی“ ایک اہم ڈاکٹرائن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپس میں برسرِپیکار جنگ کے مخالفین ایک دوسرے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بھرپور استعمال کریں اور ان ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں جنگ کے سارے فریق مکمل طور پر تباہ ہو جائیں۔

”یقینی باہمی تباہی“ تھیوری کی بنیاد سدِجارحیت یعنی ڈیٹرنس کے فلسفے پر ہے۔ اس تھیوری میں یہ دھمکی موجود رہتی ہے کہ اگر دشمن کے خلاف بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو دشمن بھی ایسا ہی کرے گا۔ لہٰذا یہی دھمکی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ”یقینی باہمی تباہی“ تھیوری دنیا میں بے حد ٹینشن کا باعث تھی اور ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اسی کے باعث کسی حد تک دنیا کا امن متوازن ہے۔ دفاعی تجزیے کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی بہترین مثال شمالی کوریا ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں نے ہی اسے تمام بیرونی حملوں سے محفوظ رکھا اور سانس روک دینے والی بین الاقوامی ایمبارگو سے بھی بچا لیا جس میں اپنے دفاع کے لیے عام روایتی اسلحہ خریدنے پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتے ہوئے بعض تجزیہ نگار جاپان اور سعودی عرب جیسے ملکوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ اُن کا دفاع ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی مضبوط ہے۔ اس سلسلے میں پہلے جاپان کو لیتے ہیں۔ جاپان کی معیشت اور کرنسی انٹرنیشنل مارکیٹ میں بہت مضبوط ہے۔

لہٰذا جاپان کا دفاع مضبوط رہنا مغرب اور ڈالر دونوں کے فائدے میں ہے۔ سعودی عرب اپنے تیل کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈالر کے عوض فروخت کرکے انٹرنیشنل کرنسی میں ڈالر کی ٹریڈنگ کو تحفظ دیتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکہ سے ڈیل کر رکھی ہے کہ وہ اپنے تیل کو ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں فروخت نہیں کرے گا۔ یہی وہ ڈیل ہے جو سعودی عرب کو کسی بڑے بیرونی حملے سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ اسامہ بن لادن ایک سعودی باشندہ تھا مگر اُسے تلاش کرنے کے لیے امریکیوں نے وہاں کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا۔

پاکستان کے پاس جاپان اور سعودی عرب جیسی معاشی طاقت کی کوئی عیاشی نہیں ہے۔ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات بھی دشمن ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ بھی جائے تب بھی دنیا کو کوئی معاشی دھچکا نہیں لگے گا۔ ”یقینی باہمی تباہی“ تھیوری کے تحت پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ اس طرح اب دنیا پاکستان کے پاس شمالی کوریا کی طرح صرف آخری آپشن نہیں چھوڑ سکتی جس کے تحت شمالی کوریا کو مجبوراً ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دینا پڑی۔

امریکی بھی پاکستان کو روایتی ہتھیار بیچنے پر مجبور ہیں تاکہ پاکستان شمالی کوریا کی طرح روایتی ہتھیاروں کی عدم دستیابی کے باعث ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات نہ کرے۔ ”پاکستان ایٹم بم کے بغیر“ اور ”پاکستان ایٹم بم کے ساتھ“ دونوں طرح کی ہسٹری ہمارے سامنے کھلی پڑی ہے۔ جو دانشور ایٹم بم کے حق میں نہیں اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جب تک پاکستان کے پاس ایٹمی پروگرام نہیں تھا اُس وقت تک پاکستان نے دنیا میں کتنی ترقی کرلی تھی؟

کیا پاکستان میں اُس وقت صحت اور تعلیم وغیرہ کا معیار بہت بلند تھا؟ جب تک پاکستان کے پاس ایٹم بم نہیں تھا اُس وقت تک دشمن نے پاکستان پر تین باقاعدہ جنگیں نافذ کیں۔ پاکستان کے پاس ایٹم بم آنے کے بعد کیا دشمن کوئی باقاعدہ جنگ نافذ کرسکا؟ اگر 1971 ء میں پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو کیا صورتحال مختلف نہیں ہوتی؟ بھارت کے سیکورٹی ایکسپرٹ اجیت دوول نے نئے سٹائل کی دھمکی دی کہ ”بھارت اپنے دفاع میں حملہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرسکتا ہے“۔

بھارت کے سابق وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ ”دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گرد بن کر ہی کریں گے“۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی سابقہ جنگی کارروائیوں اور موجودہ جنونی عزائم کو دو طریقوں سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ جب بھارت ان منصوبوں پر عملی کام شروع کرے تو پاکستان بھی اُن کا بھرپور عملی جواب دے۔ اس صورتحال میں جیت اور ہار سے زیادہ شہری خون خرابے کا امکان ہے جبکہ ٹارگٹ بھی حاصل نہیں ہوں گے۔

دوسری صورت یہ کہ بھارت کے جنگی جنون کو ایسی دھمکی سے روکا جائے کہ اُسے اپنے بھی لالے پڑنے کا خطرہ ہو۔ اس کے لیے اوپر بتائی گئی وہی ملٹری ڈاکٹرائن یعنی ”یقینی باہمی تباہی“ تھیوری ہے۔ نیوکلیئر حکمت عملی کے بنیادی اصول وضع کرنے والے امریکی حکمت عملی ساز ”برنارڈ بروڈی“ نے 1959 ء میں لکھا کہ ”با اعتماد اور یقینی نیوکلیئر ڈیٹرنٹ کو ہروقت تیار رکھنا چاہیے لیکن اس کا استعمال کبھی نہیں ہونا چاہیے“۔ کراچی یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق قائداعظمؒ نے طاقتور اور کمزور ممالک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اشارتاً کہا تھا کہ ”اگرجاپان کے پاس اپنا ایٹم بم ہوتا تو وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا تھا“۔

قائداعظمؒ کے اس اشارے کو نواز شریف کے دورِ حکومت میں 28 مئی 1998 ء کو ڈی کوڈ کردیا گیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کتنا پیسہ خرچ ہوا یا نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد کیا کیا پابندیاں لگیں؟ پاکستانیوں نے اُن مشکل وقتوں کو یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھا لیکن دنیا کو پاکستان کا ایٹم بم ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ چالاک اور سمجھدار دشمن اشارے سمجھ جاتے ہیں۔ پاکستان کا ایٹم بم ایک اشارہ ہی تو ہے۔ اسی لیے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ”مقبوضہ کشمیر سے متعلق موجودہ بھارتی اقدام خطے کی سلامتی کو تباہ کر دے گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).