جو بات بے نظیر نہیں سمجھ پائیں وہ عمران خان کیسے سمجھیں گے؟


یہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی، 1988 کے عام انتخابات کے بعد آئی جے آئی کے مقابلے میں انہوں نے بمشکل ہی کامیابی حاصل کی تھی، جنرل حمید گل کا تشکیل کردہ اسلامی جمہوری اتحاد وفاق میں تو بے نظیر بھٹو کی حکومت کے قیام کے راستے میں بند نہ باندھ سکا لیکن پنجاب میں میاں نواز شریف بطور وزیر اعلیٰ خم ٹھونک کر آ گئے۔ سینئر اور جہاندیدہ ملک معراج خالد کو بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا۔ سرد و گرم چشیدہ ملک معراج خالد نہایت ہی دانش مندی سے ایوان کو کسی بڑی محاذ آرائی کے بغیر لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ملک معراج خالد ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ رفیق تھے، لاہور کے سرحدی علاقے سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست دان نے اوائل عمری میں خود ریڑھے پر ڈبے رکھ کر دودھ بیچا۔ اور ساتھ تعلیم کا حصول جاری رکھا۔ انہیں ہمیشہ اپنے ماضی پر فخر رہا

1988 کے ان دنوں میں نوائے وقت راولپنڈی میں جونیئر رپورٹر تھا۔ کچھ سینئرز کی وساطت سے ملک صاحب تک رسائی ہو گئی اور مجھے ان کے ساتھ کئی نشستیں کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف میں محاذ آرائی زوروں پر تھی ”، وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور کے دورے پر جانے والی وزیر اعظم کا استقبال کرنے نہ آتے اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو انہیں اہم اجلاسوں میں طلب نہ کرتیں جہاں وزیر اعلیٰ کی موجودگی اصولی طور پر ضروری تھی۔

بے نظیر بھٹو ان دنوں ایسے مشیروں میں گھری تھیں جو انہیں بتاتے تھے کہ میاں نواز شریف سے محاذ آرائی میں ہی ان کے اقتدار کا استحکام ہے اور ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے اتار پھینکنے کے درپے ہیں۔ یہ پیپلز پارٹی کی وہ قیادت تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دوسرے یا تیسرے درجے یا پھر ابھی کالج یونیورسٹی میں پی ایس ایف کی سیاست کر رہی تھی، یہ تمام لوگ اقتدار اور ان کے استحکام کی نزاکتوں اور باریکیوں سے ناواقف تھے اور یہی جانتے تھے کہ بی بی کی خوشامد اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے ہی ان کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔

انہی دنوں ملک معراج خالد کے گھر جانے کا اتفاق ہوا جہاں سپیکر کی سرکاری رہائش گاہ کے ڈرائنگ میں رکھی پلاسٹک چیئرز پر بیٹھ کر گپ شپ بڑی دیر تک چلتی رہی۔ چین سموکر ملک معراج خالد سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑتے ہوئے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان کی آواز حسب معمول دھیمی اور چہرے پر گہری سوچ تھی۔ اسی دوران وہ اٹھ کر اندر گئے اور ٹرے میں چائے کے کپ لائے کہ یہی ان کا انداز تھا۔ چائے پیتے ہوئے موضوع پنجاب اور وفاق کے درمیان کشیدگی اور وزیر اعظم کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب کی محاذ آرائی کی جانب مڑ گیا۔

ملک معراج خالد کے چہرے پر میں نے پریشانی کے آثار دیکھے۔ کہنے لگے دیکھو میں نے بہت کوشش کی ہے کہ بی بی اس بات کو سمجھ سکیں کہ نواز شریف سے محاذ آرائی قطعی ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کا سارا فائدہ صرف اور صرف نواز شریف کو ہے کیونکہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے محاذ آرائی سے وزیر اعلیٰ نواز شریف کا سیاسی قد بڑھ رہا ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کا سیاسی نقصان ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں۔

کہنے لگے کہ میری یہ بات بی بی کی سمجھ میں نہیں آ رہی اور مجھے فکر ہے کہ آنے والے دنوں میں نواز شریف بی بی کے مقابلے پر کھڑا ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری خود بی بی پر اور ان کے مشیروں پر ہو گی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کا بے رحمانہ استعمال کیا اور بی بی کے حکومت کرپشن کے الزامات پر ایوان اقتدار سے نکال باہر کی گئی۔ ملک معراج خالد کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور ان انتخابات کے نتیجے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف وزرات عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔

اور پھر اقتدار کی میوزیکل چیئر انہی دونوں کے درمیان کئی سال تک گھومتی رہی۔ آج ایک بار پھر کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ 22 سال تک سیاسی جدوجہد کے بعد ایوان اقتدار میں پہنچنے والے وزیر اعظم عمران خان کو نوجوان ن لیگ کی مریم نواز کے چیلنج کا سامنا ہے۔ مشیروں کے کہنے پر مریم نواز کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن عوام ہیں کہ مریم کے جلسوں اور ریلیوں میں امڈے چلے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا جو پہلے عمران خان کا ہتھیار تھا اب وہی ہتھیار مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔ دریا کے آگے بند باندھنے سے پانی کا دباؤ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مریم نواز کو اپنے مقابلے پر لانے کے لیے خود موقع اور گنجائش فراہم کر رہے ہیں لیکن جو بات بے نظیر بھٹو کو سمجھ میں نہیں آئی تھی اور عمران احمد نیازی کی سمجھ میں کیسے آئے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).