مریم نواز صفدر لیڈر بن سکتی ہیں۔۔۔


پاکستان کا ایک المیہ رہاہے اور آج بھی ہے کہ اس دھرتی پہ، ملک سے اہم شخصیات رہی ہیں۔ اور شخصیات پہ حرف آیا نہیں اور ملک کے رہنے یا نہ رہنے کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ جناب آپ کے اجداد نے اگر ملک کے لیے جہدو جہد کی تھی تو اس لیے نہیں کی تھی کہ آپ اس ملک کے مختار کل بن جائیں کہ جو چاہیں آپ فیصلہ کریں وہی قانون بن جائے۔ اس ملک کی بنیادوں میں تو ایسے گمنام شہیدوں کا لہو بھی شامل ہے کہ جن کے لاشے بھی شاید مٹی میں ایسے دب گئے کہ زمین بھی ہموار ہو گئی اور اس زمین پہ آج کوئی اکڑ کے اس ملک کے خلاف بات کرتے ہوئے جب چلتا ہے تو شاید اسی زمین کے نیچے وہ لاشہ تڑپ جاتا ہو گا۔

اور اس ملک کی آبیاری ان ماؤں، بہنوں نے اپنی عزتیں لٹا کر کی ہے جن کے ناموں سے بھی آج کی نسل واقف نہ ہو گی۔ اور ان میں سے کتنی ہی ایسی تھیں جو ایسے گمنام کنوؤں میں کود گئیں کہ جن کے میٹھے پانی آج کی نسل پیتے ہوئے اس ملک کی عزت و تکریم پہ ہرزہ سرائی کرتی ہے۔ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر ہوتا تو یقینی طور پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ یہ تو فلاں کے باپ دادا کی جاگیر ہے جو چاہیں کہیں اس کو۔ لیکن اگر اس پاکستان کے معمار ہی وہ ہیں جنہوں نے ایسے، اس ملک کے لیے قربانیاں دیں کہ انہیں یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ ان کا نام بھی باقی رہے کہ کوئی ان کے نام کو بنیاد بنا کر اس ملک سے کچھ مانگتنا پھرے تو ہم اور آپ کس باغ کی مولی ہیں جو اس دھڑلے سے وطن عزیز کے خلاف بولیں۔

مریم نواز صفدر گرفتار ہو چکی ہیں۔ اور ان کے پارٹی کارکنان جو ایوان کا حصہ ہیں، انہوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر ڈالا کہ اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔ یاد رکھیے کسی بھی ملک میں ہزاروں سیاستدان ہوتے ہیں لیکن ان میں سے معدودے چند ایسے افراد جو انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں، وہ راہنما بن پاتے ہیں۔ ان گنتی کے چند افراد کو سیاست کے گرو لیڈر مانتے ہیں۔ اوراس لمحے مریم بی بی کے پاس بھی ایک سیاستدان سے لیڈر بننے کا سنہری موقع ہے۔ اب یہ ان پہ ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں یا اس موقع کو گنواتی ہیں۔

اگر مریم بی بی اس لمحے اپنی ذات کا سوچتی ہیں، صرف ایک سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے خود کو منسلک سمجھ کے سوچتی ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت پاکستان میں موجود ہزاروں سیاستدانوں کی طرح ہی تاریخ کا کوئی گمنام گوشہ پائیں گی۔ لیکن اس وقت اگر وہ خود کو تمام سیاسی وابستگی سے ایک لمحے کے لیے ہٹ کہ خود کو صرف پاکستانی سمجھتی ہیں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ وہ تاریخ میں اپنا مقام ایک راہنما کے طور پہ پا لیں گی۔ لیکن اس حوالے سے فیصلہ مریم نواز صفدر کو کرنا ہے کہ وہ اس لمحے کیا چاہتی ہیں۔

اگر صرف سیاستدان ہی بننا ہے تو اپنی گرفتاری کو کیش کروائیے۔ ایوان میں ہنگامہ کروائیے۔ اور پارٹی کارکنان کو احکامات دیجیے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ متنازعہ بیانات کی بھرمار کر دیجیے۔ دوسرے سیاستدانوں کے خلاف اخلاقی معیار سے کئی درجے نیچے گفتگو کیجیے۔ آپ کو کوئی نہیں روکے گا، اور آپ کا درجہ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک عام سیاستدان سے بڑھ کے نہیں ہو گا۔

لیکن اگر مریم صاحبہ اس وقت وسعت قلبی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ذات کو، اپنے خاندان کو، ملک کے لیے سمجھتے ہوئے، اس لمحے پاکستان کو سب سے پہلے سمجھتی ہیں تو وہ صرف ایک بیان دے سکتی ہیں۔ وہ صرف اپنے قابل بھروسا ساتھی کی مدد سے میڈیا میں ایک پریس ریلیز جاری کروا سکتی ہیں جس میں صرف مختصر سی تحریر ہو کہ ”میری گرفتاری اس وقت اہم نہیں اور میں مقدمات کا سامنا کروں گی۔ میری اپنے کارکنان سے اپیل ہے کہ وہ میری گرفتاری پہ احتجاج و ہنگامے کے بجائے کشمیر کے مسئلے کو ترجیح بنا لیں۔“

حکومت سے اختلافات ہم رکھتے ہیں اور رکھیں گے لیکن اس وقت ہماری ترجیح کشمیر ہونی چاہیے۔ ہمیں کشمیر میں جاری ظلم و ستم پوری دنیا کو دکھانا ہے۔ اور پاکستان کے خلاف کسی قدم پہ ہم حکومت اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بس اتنی سی بات۔ اور آپ یقین کیجیے مریم نواز جیل میں قید میں رہتی ہیں تو بھی اس ملک کی ایک بڑی راہنما بن کے ابھریں گی۔ اور پاکستانی سیاست میں ان کے نام کا ڈنکا بجے گا۔ لوگ انہیں ان کے نام سے پہچانیں گے۔ وہ یہ بھول جائیں گے کہ مریم بی بی نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف مریم بی بی کے پاس ہے۔

کردار پہ بحث نہیں، ذات کے بخیے ادھیڑنا مقصور نہیں، صرف ایک لمحہ سوچیے آج مخالفین بھی بھٹو کا نام لیتے ہوئے اپنا لہجہ احترام کے دائرے میں کیوں لے آتے ہیں؟ کیا کبھی سوچا کہ اس کے ذاتی کردار کے بجائے اس کا نام ایک علامت بن کے کیسے ابھرا؟ بھٹو نے پاکستانی سیاست کی سختیاں برداشت کیں۔ اس نے اپنے باپ دادا کے نام کو کیش کروانے کی بجائے ایسے فیصلے کیے کہ بھٹو سیاسی کارکنوں کے دل میں اتر گیا۔

فوری اور بروقت فیصلہ آپ کا نام تاریخ میں امر کر دیتا ہے اور اگر آپ فیصلے میں تھوڑی سی بھی تاخیر کر دیں تو آپ بھی تاریخ میں ایسے گمنام رہتے ہیں جیسے کھربوں لوگ رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).