صدام حسین اور اس کی وردی


وہ 16 جولائی 1979 کو عراق کا صدر بنا اور 24 برس تک مسلسل حکمران رہا۔ اس کا تکیہ کلام تھا ”میرا جوتا میرا آئین اور قانون ہے۔“ عراق میں تب چھے بڑے عہدے ہوا کرتے تھے، صدر، وزیرِ اعظم، افواج کا سپریم کمانڈر، وزیرِ دفاع، چیئر مین انقلابی کمانڈ کونسل اور پارٹی کا سیکرٹری جنرل اور یہ سبھی عہدے دار اس کے گرد طواف کیا کرتے تھے۔

وہ عراق کا مضبوط ترین آدمی تھالیکن وردی کو وہ اپنی اصل طاقت کہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ”اگر انتظامی اور سیاسی طاقت کو وردی کی قوت مل جائے تو وہ ناقابلِ تسخیر اقتدار بن جاتی ہے۔“ وہ کہتا تھا ”وردی اس کرہ ارض پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور جو لوگ اس نعمت کا کفران کرتے ہیں وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔“ شاید وہ ٹھیک تھا، اس کی وردی میں تو اتنی طاقت تھی کہ اس نے آئین تک بدل دیا تھا۔ ایک ہی وقت میں دو افواج یعنی ملک کی فوج جس کی تعداد پانچ لاکھ تھی اور اپنی ذاتی فوج کا سربراہ، بیک وقت پو لیس سے لے کر عدلیہ تک کو کنٹرول کرنے والا وہ فیلڈ مارشل صدام حسین تھا، صدام کی وصیت کا احترام کرتے ہوئے اسے فیلڈ مارشل کہہ کر پکارا جائے۔

کہتے ہیں صدام حسین نے عراق میں اپنے اتنے زیادہ مجسمے لگوائے کہ بغداد کا ہر بچہ آنکھ کھولنے کے بعد سب سے پہلے صدام حسین کا بارعب چہرہ دیکھتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ صدام حسین نے تمام مجسموں میں وردی پہن رکھی تھی۔ صدام حسین کی وردی میزائل پروف گاڑی میں سفر کرتی تھی۔ کہتے ہیں اس وردی کو دھونے سے پہلے دھوبی اور استری پھیرنے سے پہلے استری کرنے والا سیلیوٹ کیا کرتے تھے۔ ہر اٹھانے والا پہلے وردی کو سیلوٹ کرتا تھا، یہ بھی حکم تھا کہ کرنل سے کم رینک کا افسر وردی کو ہاتھ نہ لگائے، اس تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے صدام حسین نے اپنے دھوبیوں، استری والے ملازموں اور وردی کو ادھر اُدھر لے جانے والے خادموں کو کرنل کا عہدہ دے رکھا تھا۔

صدام حسین کی وردی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی کہ 2003 آیا اور اچانک امریکہ نے اتحادیوں سے مل کر عراق پر حملہ کر دیا۔ امریکہ، اتحادیوں کے مقابلے میں صدام کم لڑتا ہے مگر اس کی وردی بہت لڑتی ہے۔ آخر کار دونوں کا حوصلہ جواب دیتا ہے اور صدام حسین روپوش ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد صدام حسین اور اس کی وردی کی کہانی کچھ ایسی ہے کہ ”پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہ رہ سکے“۔

اول صدام کا ذکر کرتے ہیں بعد میں وردی کا احوال بتائے دیں گے۔ بغداد کے معروف فزیشن اور سرجن ڈاکٹر الا بشیر نے بہت عرصہ صدام کے ذاتی معالج کی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے صدام حسین کے بارے میں کتاب لکھی جس میں وہ لکھتے ہیں ”صدام اپنی مونچھوں کے بارے میں حساس تھے، وہ مونچھیں رنگتے تھے اور رنگنے کے لیے بارہ ماہرین کی ٹیم بنا رکھی تھی۔ صدام اپنے امیج کے بارے میں بھی بہت حساس واقع ہوئے تھے۔ 1991 میں وہ حادثے کا شکار ہو گئے، چہرے پر چوٹیں آئیں جس کے بعد ڈاکٹر ان کے چہرے پر پٹیاں لگانے لگا تو صدام نے منع کر دیا۔ صدام کا خیال تھا کہ وہ اس حالت میں کمزور اور لاغر نظر آئے گا اور وہ اتنے دن ٹیلی ویژن پر بھی نہیں آ سکے گا۔“

سقوط بغداد کے بعد دوران قید جب صدام حسین کی ایک غیر مناسب تصویر منظر عام پر آئی تو اس سلسلے میں صدام کے سرکاری سوانح نگار کوہن کوہلن نے برطانوی اخبار ”ڈیلی میل“ میں ایک مضمون لکھا۔ وہ اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”صدام کی خوش لباسی کے چرچے پوری دنیا میں تھے، ان کے سوٹ لندن کے مشہور ٹیلر سیتے تھے، ان کے وارڈ روب میں تین سو قیمتی سوٹ اور اڑھائی ہزار جوتے تھے، ان کے 48 محلات تھے جن کی دیواریں سنگ مرمر کی تھیں، باتھ رومز کی ٹونٹیوں اور دروازوں کے ہینڈلوں پر سونے کا پانی چڑھا تھا۔“

یہی صدام جب گرفتار ہوا تو دوران قید باتھ روم خود دھوتا رہا، کپڑوں کے دو جوڑے دیے گئے اور پلاسٹک کا ایک سلیپر حاضر خدمت کیا گیا۔ وہ صدام جس کے سگار ہوانا سے آتے تھے، جس کے مشروبات فرانس کی کمپنیاں بناتی تھیں، جس کے کپڑوں، جوتوں اور خوشبوؤں کی حفاظت کے لیے ایک پورا سیکرٹریٹ تھا، اسی صدام کے بارے میں 14 دسمبر 2005 کو خبر چھپی، خبر کچھ یوں تھی کہ ”صدام کو دو برسوں میں جوتوں کا صرف ایک جوڑا فراہم کیا گیا اور صدام نے پچھلی پیشی کے دوران مطالبہ کیا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نئے جوتے فراہم کیے جائیں۔“

حسب وعدہ اب تذکرہ ان کی وردی کا۔ سقوط بغداد کے بعد امریکی فوج کا سپاہی ائیر پورٹ پر تلاشی لے رہا تھا کہ اسے ایک شاپنگ بیگ ملا۔ اس بیگ میں صدام حسین کی وردی تھی جس پر تمام فوجی اعزازات اور تمغے سجے تھے۔ 2003 میں ہی اس سپاہی نے یہ وردی نیلام گھر ”مانین انٹر نیشنل آکشن ہاؤس“ کے حوالے کر دی۔ اس نیلام گھر نے 2005 میں یہ وردی نیلامی کے لیے پیش کی۔ ان کا خیال تھا کہ طویل عرصے تک حکمران رہنے والے صدام کی وردی لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہو گی مگر حیرت کی بات تھی کہ اس کی بولی پانچ ہزار ڈالر سے شروع ہوئی اور 2006 میں سولہ ہزار ڈالر پہ رک گئی۔ بولی بڑھانے کی کوششیں ناکام ٹھہریں تو مجبوراً وردی سولہ ہزار ڈالر میں بیچ دی گئی۔

صدام اور اس کی وردی کا احوال پڑھتے ہوئے سمجھ آیا کہ وردی چند میٹر قیمتی کپڑے اور اس پر لگے کچھ تمغوں کا نام نہیں ہوتا۔ جاوید چودھری صاحب نے صدام کے سیل کی تصویر بیڈ رومز میں لگانے کی خواہش کی تھی۔ میں چودھری صاحب سے اتفاق کرتے ہوئے لکھے دیتا ہوں کہ پاکستان کے جمہوری حکمران دفتر سے گھر تک صدام حسین کی ایک ایک تصویر فریم کروا کے لگائیں۔ ساتھ ہی پاکستان کے اصلی ”با وردی حکمران طبقے“ کے لیے بھی یہی مشورہ ہے کہ وہ صدام کی وردی کی تصویر اپنے دفاتر میں آویزاں کروائیں تاکہ اٹھتے بیٹھتے اپنے جیسے کسی کا انجام سوچ کر دل میں خوف خدا اور احترام انسانیت پیدا ہو۔

نوٹ: اس تحریر میں دیے گئے حقائق کا ماخذ جاوید چوہدری صاحب کا کالم ہے جو ان کی کتاب زیرو پوائنٹ تھری کے صفحہ 56 پر موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).