رفعت وحید کی شاعری اور ان کی کتاب سمندر استعارہ ہے


رفعت وحید عہد حاضر کی ایک منفرد شاعرہ ہیں جن کی شاعری نہ صرف انسانی خیالات و جذبات کی ترجمانی کرتی ہے بلکہ وہ سماجی مسائل و جبر کے خلاف اپنے قلم سے آواز بلند کرتی ہیں اور جب ان کا قلم کچھہ لکھنے لگتا ہے تو وہ ذہنوں، دلوں اور روحوں کو چھو لیتی ہیں۔ رفعت وحید کو شاعری کرنے کے لئے کس نے متاثر کیا؟ اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتی ہیں لیکن جس نے بھی آپ کے دل میں یہ درد جگایا، اور آپ کے ذہن کی آبیاری کر کے خیالوں کے سلسلے کی زنجیر کو جوڑا، انہیں بھی سلام کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک ایسی جہاندیدہ شاعرہ کو متعارف کرایا جس کی شاعری بارش کی بوندوں کی مانند ہے، جس میں رات کی تاریکی میں مدہم دیے کی روشنی بھی ہے، جس میں سمندروں کی گھرائی بھی ہے تو پھاڑوں اور چٹانوں سی اونچائی بھی، جس میں صحراؤں کا سفر بھی ہے، اور تپتی ریت کا تصور بھی، جس میں بچیوں کی معصوم سلگتی صدائیں بھی ہیں اور نفاستوں میں ملبوس عورت کا ریشمی دھڑکتا ہوا دل بھی ہے، جس میں دُکھ بھرے داستان، مسلے ارماں، راتوں کا درد، یادوں کی بارات بھی ہے اور پیار کے موتی، موہنے کا مزاج، برسا کی رت، ساون کی بوندیں، خوشیوں کے بوسے، الہڑ جوانی کے ترانے اور بکھرنے کے بہانے بھی ہیں۔ ان نفاستوں میں اوڑھی رفعت کی شاعری سماجی نا انصافی اور عورت دشمنی کے خلاف وہ شعلہ بھی ہے جو کہ اس نا انصافی کو جلا کے بھسم کرنے کا فن، ارادہ اور ہمت بھی رکھتا ہے۔

رفعت وحید کو میں نے پہلی بار ”سندھی عورت“ تنظیم کی طرف سے اسلام آباد میں منعقد ایک عورت مشاعرہ میں سنا بلکہ جس نے بھی سنا وہ رفعت کی شاعری اور اس کے جہاندیدہ خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ان کی کتاب ”سمندر استعارہ ہے“ کو، جو پہلی مرتبہ 2015 میں اور دوسری مرتبہ 2017 میں چھپی، قارئین کی طرف سے شاندار پذیرائی ملی۔ رفعت کی شاعری موضوعات کے حوالے سے بہت ہی وسیع ہے۔ لیکن محبت، پیار، ملن، جدائی، ملنا، بچھڑنا، انسانی رویے، عورت کے مسائل جیسے خیالات ان کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔

عورتوں کے حوالے سے ایک نظم میں آپ لکھتی ہیں :

ہم پر ہاتھ اٹھانے والے
نا مردوں سے مرد ہمارے
ہم سے رنگ زمانے میں
پھر بھی چہرے زرد ہمارے
جسموں کے سوداگر ہیں
ظاہر میں ہمدرد ہمارے

اس شعر میں عورت کی عام زندگی کی کتھا بیان کی گئی ہے جو ہمارے سماج میں ہر خاتوں بھگتتی رہتی ہے۔ عورت پر ہاتہ اٹھانا ہمارے معاشرے میں ابھی تک کوئی معیوب بات نھیں سمجھی جاتی اور خواتین پر تشدد ہمارے ہاں ہر آئے دن اور گھر گھر کی کہانی ہے۔ ایک حساس عورت اپنے قلم کی نوک سے جب یہ کہتی ہیں ”ہم پر ہاتھ اٹھانے والے نا مردوں سے مرد ہمارے“ تو وہ اس معاشرے کے چہرے کو اپنا آئینہ دکھا کے کہتی ہیں کہ اپنی نظریں نیچی کر لیں آپ عورت کے وجود کے مجرم ہیں۔

چوڑی، جو کے عورت کے جسم پہ خوبصورتی کی علامت بھی ہے اور اگر حالات اور واقعات کچھ مختلف ہوں تو غلامی کا تصور بھی ہے۔ رفعت کہتی ہیں :

جگ نے میرے ہاتھوں میں
چوڑی کیوں پہنائی ہے
عورت ہی کی خاطر کیوں
ذلت ہے رسوائی ہے

اب یہاں پر بہت ہی نفیس، نازک، دل کو چھو لینی والی شاعرہ کے خیال اور قلم کو چوڑی کسی خوبصورت عورت کی کلائی میں پہنے، ججتی اور گنگناتی ہوئی، محبت اور رومانس کی علامت نہیں بلکہ غلامی اور قید میں جکڑنے کی علامت کے طور پے استعمال ہوئی ہے۔ کیونکہ رفعت عورت ہیں اور وہ عورت کی کتھا بیان کر رہی ہیں کہ ہر عورت کے لیے چوڑی محبت کی تکمیل نہیں، یہی چوڑی پوری عمر کی غلامی کی ابتدا بن جاتی ہے۔ فیض احمد فیض سے منسوب ایک شعر میں بھی رفعت بیان کرتی ہیں،

کس قدر حبس ہے عورتوں کے لیے
یہ جو در ہے کھلا فیض کا فیض ہے

عورت کے لیے سماج کے اندر ایک ایسی گھٹن ہے جو اس کے اندر کو دکھی کر کے رکھتی ہے اور وہ دکھ عورت کے ساتھ عمر بھر چلتا رہتا ہے۔ عورت چاہتی ہے کہ اس کے لیے بھی دنیا میں محبت، آزادی اور سانس لینے کے لیے جگہ ہو اور یہ چیزیں کسی سے خراج میں نہ مانگنی پڑیں۔ یہ احساس اور خواب کی آزادی کہیں شوہر کے نام پر، کہیں سماج کے نام پر، کہیں عزت اور غیرت کے نام پر، کہیں اسے مذاہب کی اپنی تشریح کے نام پر سلب نہ کر دیا جائے۔

رفعت کے نزدیک اگر محبوب کو پانا بھی ہے لیکن اس میں اپنا آپ برقرار رکھنا ہے۔ آپ کہتی ہیں

تجھے پانا ہے لیکن تیری خاطر
خود اپنے آپ کو کھونا نہیں

ہیں مٹی میں سفرکے لاکھ رستے
اتر کر خاک میں سونا نہیں ہے

آپ کے نزدیک اپنا وقار، خودی، اپنی آزادی، اپنی اسپیس برقرار رکھنی ہے اور یہی ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک انسان پہلے اپنے وجود کو خود سمجھے بعد میں دوسروں کو سمجھے۔

دوسروں پے کیا کھلوں خود سے بھی پوشیدہ ہوں میں
قیمتی پتھر ہوں پر نا تراشیدہ ہوں میں

رفعت کی شاعری کے اندر عورت کے سارے احساس پنہاں ہیں۔ آپ عورت کے دکھی دیس کی کہانی کو اپنے قلم کے ذریعی قاری تک لے آتی ہیں۔ وہ کوئی بھی بات، کوئی بھی دکھ، کوئی بھی درد اور ظلم ہو، کو چھپا کے اپنے سینے میں دبا نہیں دیتیں، اپنے ذہن کے ایک کونے میں سلا نہیں دیتیں، اپنے دل کی دھڑکن میں سما نہیں دیتیں بلکہ وہ اپنے نفیس خیالات اور اپنے نڈر قلم کی نوک سے بیان کر دیتی ہیں اور یہ نھیں سوچتیں کے لوگ کیا سوچیں گے۔

مجہ میں ایک حویلی ہے
اور لگے ہیں در مجھ کو

پنجرے جیسا لگتا ہے
رفعت میرا گھر مجھ کو

آدم سے مرا عشق مرا جرم تھا لیکن
رفعت میں گھنگار ہوں شرمندہ نیہں ہوں

چڑھا جب دن تو عریانی مری دیکھی زمانے نے
تری بھیجھی ہوئی کالی گھٹا تاخیر سے پہنچی

بدن کی آگ نے برباد کر دیں بستیاں رفعت
ہمارے پاس رحمت کی گھٹا تاخیر سے پہنچی

رفعت نے اپنے شاعری میں جو خیالات پروئے ہیں، وہ دل کی زمین اور سوچ کے آسمان پہ ایسے زلزلے پیدا کر دیتے ہیں کہ قاری کی سوچ، شاعری کی سوچ میں اتر جاتی ہے۔ اس شعر میں وہ کسان سے مخاطب ہیں، محافظ سے مخاطب ہیں، خود سے ہم کلام ہیں اور تیر الزام ہیں۔

چرند ہی کھیتی اجاڑ جاتے ہیں
حفاظتوں کا ہنر کسان بھول گئے ہیں

حواس کھو دیے گلیوں کے جال میں پھنس کر
ہم اپنے شہر میں اپنا مکان بھول گئے

میری سپاہ تھی جن کی کمان میں اب تک
جو رن پڑا تو وہ افسر کمان بھول گئے

اگر کسان اپنے کھیتوں کی حفاظت بھول جائے، مکیں، مکان بھول جائے اور سپاہ کمان بھول جائے تو یہ کسی بھی شخص، سماج کی ٹوٹ پھوٹ کی نشانی ہے۔ رفعت کے قلم، ان کے سوچ کی بلندی، خیال کی اڑان، نڈر حوصلوں، کمال فن بیان سے آپ نے نفیس ترین انسانی جذبوں، خیالات اور سوچ کو شعر میں پرو دیا ہے کہ اب یہ خیالات رفعت کی ذات سے نکل کر سماج کے ہر اس انسان کے خیالات بن گئے ہیں جو رفعت جیسا سوچتا ہے اور رفعت جیسا بھگتتا ہے۔ آپ کو ایک بار رفعت کی شاعری کو ضرور پڑھنا چاہیے تا کہ آپ ان خیالوں کو اپنی روح سے محسوس کریں۔ اس دعا کے ساتھ کے رفعت کا قلم، روح اور دل سدا آباد رہیں اور ہمارے لیے تخلیق کے سرچشموں اور سمندر کے گھرے پانیوں سے پیار اور محبت کے موتی اشعار کی شکل میں پروتے اور پیش کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).