کشمیر: امن کو موقع ملنا چاہیے


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران پاکستان اوربھارت کے درمیان عشروں سے جاری تنازعہ کشمیر پر بھاتی وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے ثالثی کی درخواست کے بیان نے ہلچل مچا رکھی ہے۔ بھارت نے باقاعدہ سرکاری طورپر صدر ٹرمپ کے اس دعویٰ کی تردیدکی ہے۔ امریکی صدر کے ایسے دعوے اکثر اوقات شکوک وشبہات ہی پیداکرتے ہیں اوراس سے بڑھ کر صدر ٹرمپ کی اہلیت پر سوال اٹھ رہا ہے کہ کیاوہ ایسے نازک مسئلہ پر ثالثی کی اہلیت بھی رکھتے ہیں؟

ان حالات میں یہ بھی دیکھاجانا چاہیے کہ کیا پاکستان اورامریکہ کے ساتھ ساتھ امریکہ اوربھارت کے تعلقات ایسی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہیں کہ امریکہ کشمیر جیسے نازک مسئلہ پر دونوں ممالک کے لئے قابل اعتماد ثالث کا کردارادا کرسکے۔ ووڈروولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیاء پروگرام اورسینئر ایسوسی ایٹ برائے جنوبی ایشیاء مائیکل کوگلمین کا پاکستان سے امریکی تعلقات کے تناظر میں کہناہے کہ ”بظاہر وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران دونوں سربراہان مملکت کے درمیان مسکراہٹوں کے تبادلے اورمثبت تاثرات دکھائی دیے مگرامریکہ پاکستان سے افغانستان میں تعاون کو ٹھوس بنیادوں پراستوار کرنے کی یقین دہانی چاہتاہے مگر یہ خام خیالی دورکرلی جانی چاہیے کہ پاک امریکہ تعلقات میں گذشتہ کئی سالوں سے آنے والا بگاڑ درست ہوچکا ہوگا۔ اسے دورکرنے کے لئے ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔“

مزیدبرآں امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی بہت اچھے نہیں ہیں اورگذشتہ برس ان میں بہتری کی رفتار قدرے اطمینان بخش ضرور رہی ہے لیکن تجارتی محصولات پر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر مقابلے پر ڈیوٹیزلاگو کی ہیں۔ اگرچہ جی 20 کے حالیہ اجلاس کے دوران ٹرمپ مودی ملاقات میں باہمی تعلقات کی بہتری کے لئے بات چیت ہوئی اورپھر امریکی نمائندگان کے وفد کے دورہ بھارت میں بھی بات چیت آگے بڑھی۔ لیکن بعدازاں صدرٹرمپ نے مودی سرکارکے اعتماد کوٹھیس پہنچائی اوراس وقت دونوں کے درمیان غیر یقینی کی فضاء پائی جاتی ہے جو ثالثی کے حوالہ سے بری خبرہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اوربھارت کی دو اہم ترین شخصیات یعنی دونوں وزرائے اعظم مودی اورعمران خان اپنے اپنے ملک کوآگے لے جانے کی خاطراورکشمیر میں امن بحال کرنے کے لئے باہمی تعاون کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔ نریندر مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے انہیں تہنیتی خط میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی دعوت بھی دی تھی۔

اس خط میں پاکستانی وزیراعظم نے کہاتھا کہ باہمی تعاون کے ذریعہ وہ دونوں ممالک میں غربت کے خاتمہ اورعلاقائی ترقی کے لئے ایک دوسرے کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ جواباً وزیراعظم مودی نے بھی پاکستان سے نارمل اورباہمی تعاون پر مبنی تعلقات کی خواہش کا اظہارکیاتھالیکن ساتھ یہ بھی زوردیاتھاکہ ایسا کرنے کے لئے اعتماد کے فروغ اورتشدد، دہشت گردی اورانتہاء پسندی سے پاک ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ خوشگوارسیاسی تبادلہ خیال دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کا نقطہ آغاز ہوسکتاہے۔

میرے خیال میں دونوں ملکوں کے بہترین مفادمیں بھی یہی ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل سے، فوری نتائج سے متعلق، غیرحقیقی توقعات وابستہ کرنے کی بجائے بتدریج مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کریں۔ پندرہ برس قبل انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کشمیر میں امن اوراس مسئلہ کے جامع حل کے لئے پہلے تعلقات کو معمول پر لانے اوراعتماد پیدا کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تنازعہ کے تمام چھوٹے بڑے پہلوؤں پر غورکرنے کے ساتھ ساتھ تناؤ کے خاتمہ کے لئے پہلے کم متنازعہ مسائل حل کرنے چاہئیں اورپھر بتدریج سنگین مسائل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیر کے ان دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سب سے بڑا تنازعہ ہے جو گذشتہ سات عشروں میں تین جنگوں اوردونوں اطراف ہزاروں جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکاہے۔ رواں سال فروری میں اسی تنازعہ کی وجہ سے دونوں طرف فوجوں کی نقل وحرکت سے یہ ممالک ایک نئی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تاہم اس وقت صورتحال کافی حد تک پرسکون ہے اورکوئی قابل ذکر جھڑپیں بھی نہیں ہورہیں۔ اس وقت کشمیر ایک مرتبہ پھر مرکزنگاہ ہے اورامن عمل ومذاکرات کی بات ہورہی ہے تو عملی طورپر اس کا آغاز بھی ہوناچاہیے۔

دونوں فریقین کو بتدریج مسائل کے حل کی طرف آنا چاہیے اورپہلے چھوٹے معاملات کو حل کرنے کے بعد بڑے تنازعات کی طرف بڑھنا چاہیے لیکن جس قدر ممکن ہوسکے یہ کام میڈیا کی عینک سے دور رکھ کر خلوص نیت سے انجام دیاجانا چاہیے۔ پاکستان اوربھارت کا مفاد بھی ان مسائل کے حل میں مضمر ہے کیونکہ اربوں ڈالر اور ہزاروں زندگیاں جنگ میں جھونکنے کے بعد بھی کوئی اس لڑائی کا فاتح نہیں ہوگا اس لئے یہی رقم اورمین پاور دونوں ممالک اپنی معاشی ترقی کے لئے خرچ کرسکتے ہیں۔ امن بحال کرکے پاکستان اوربھارت جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے پورے خطہ میں امن اوراستحکام پیدا کرسکتے ہیں۔

سارک کے آٹھ رکن ممالک کی کل آبادی ایک ارب ستر کروڑ سے زائد ہے جن کی اکثریت غربت، صحت کی ناقص سہولیات اورخوراک کی کمی کا شکارہے۔ کئی نسلوں سے ان مسائل کا شکار اس آبادی کو یہ تنازعہ حل کرکے بہترماحول اورخوشحال زندگی جینے کے بہترین مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ تنازعہ کشمیر کا پرامن حل اورپاکستان بھارت اورپورے جنوبی ایشیاء کے لئے اس کے ثمرات بظاہر ایک مشکل عمل دکھائی دیتاہے لیکن اپنے اپنے ملک میں طاقتورترین وزرائے اعظم عمران خان اورنریندر مودی کے لئے شاید ایسا نہ ہو۔ عمران خان اورنریندرمودی دونوں مضبوط وزیراعظم قراردیے جاتے ہیں اوراس تنازعہ کے حل کے لئے بھی دونوں طرف طاقتورشخصیات ہی کی ضرورت ہے ایسی شخصیات جو امن کی بحالی اورجنگ سے بچانے کی استعداد پوری ذمہ داری کے ساتھ رکھتے ہوں۔

خوش قسمتی سے دونوں وزرائے اعظم اپنے اپنے ممالک میں طاقت کے مراکز سے بھی اچھے تعلقات استوارکیے ہوئے ہیں اورعوامی سطح پر بھی انہیں بھرپورتائید حاصل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں کسی ناممکن کو ممکن بناسکیں گے۔ کیا یہ لیڈرز اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کو یہ باورکرانے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ کشمیر میں امن کو ایک موقع دیاجاناچاہیے۔ پرانی کہاوت ہے کہ ہزاروں میل کے سفر کا آغاز بھی ایک قدم سے ہوتاہے۔ اگر عمران خان اورمودی یہ قدم اٹھانے میں کامیاب ہوگئے تو اس سے پاکستان، انڈیا اورخطہ کے تمام ممالک میں امن و استحکام کے سفر کا آغاز ہوجائے گا۔ مذاکرات کا عمل کب ختم ہوگا، کن مراحل اورکون سی مشکلات سے گزرے گا کوئی نہیں جانتا مگر اب یہ بہترین وقت ہے اس سمت میں پہلا قدم اٹھالیاجائے۔

(Frank F Islam is an Entrepreneur, Civic Leader,and Thought Leader based in Washington DC The views expressed here are personal)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).