رخشی کیوں روتی تھی؟


ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی۔ پہاڑی علاقے میں پیڑ پودوں کی کثرت تھی۔ بادل زمین پر تھے اور اتنے گہرے تھے کہ چند فٹ سے آگے دیکھنا ممکن نہ تھا۔ وہ اس رستے پر چلی جا رہی تھی۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں جا رہی ہے مگر چلی جا رہی تھی۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ پھر یوں لگا جیسے پیچھا کرنے والا ایک نہیں ہے وہ بہت سے تھے۔ ان کی سرسراہٹیں سن کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ پھر ان میں سے ایک اس کے سامنے آ گیا۔ اس کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکل گئی۔ ایک خونخوار چیتا اس کے سامنے تھا اور بھوکی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے جبڑوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ وہ بری طرح پھنس گئی تھی۔ چیتے نے دھاڑتے ہوئے اس پر چھلانگ لگ دی۔ اس نے ایک چیخ ماری اور الٹے قدموں بھاگ نکلی۔

چیتا اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ شاید کچھ اور جانور بھی تھے وہ طرح طرح کی آوازیں سن رہی تھی۔ اچانک بجلی زور سے کڑکی اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ وہ اس طوفانی بارش میں جان توڑ کر بھاگ رہی تھی۔ کسی بھی پل چیتا اسے دبوچ سکتا تھا۔ اچانک اس کا پاؤں پھسلا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ ہزاروں فٹ اونچائی سے نیچے گر رہی ہو۔ خوف سے اس کی آنکھیں بند تھیں آنکھیں کھولیں تو دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اسے صاف نظر آ رہا تھا، وہ واقعی پہاڑ کی بلندی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر رہی تھی۔

اسے دور نوکیلے پتھر نظر آ رہے تھے۔ بس چند لمحوں میں وہ ان پتھروں پر گرنے والی تھی۔ ایسی دردناک موت کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے چیخنا چاہا تو آواز سینے میں گھٹ کر رہ گئی۔ زمین تیزی سے اس کے قریب آ رہی تھی اچانک منظر بدل گیا۔ وہ بیڈ پر تھی۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر تھی اور سانسیں بے ترتیب۔

مس مہوش نے دروازے سے اندر قدم رکھا پھر رک گئیں۔ رخشی نے سر سے پاؤں تک کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ کمبل کے سرے سے اس کے بالوں کی چند لٹیں باہر جھانکتی تھیں۔ وہ دیوار کی طرف منہ کیے ہوئے لیٹی تھی۔ اس ڈورم (بورڈنگ کا کمرہ ) میں دس لڑکیاں رہتی تھیں۔ اس وقت نو بیڈ خالی تھے۔ اس انگلش میڈیم سکول کے بورڈنگ میں تقریباً سو لڑکیاں تھیں۔ جب ناشتے کے لیے سب کو ”فال ان“ کرایا گیا تو ہیڈ گرل مہک نے گنتی کے بعد مس مہوش کو بتایا کہ ایک لڑکی کم ہے۔ فال ان کی ٹرم بورڈنگ میں تمام لڑکیوں کو قطاروں میں کھڑا کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ مس مہوش کا دھیان فوراً رخشی کی طرف منتقل ہوا تھا اور ان کا اندازہ سو فی صد درست تھا۔

”رخشی۔ رخشی۔ “ انہوں نے آواز دی۔ رخشی کا جسم کپکپا رہا تھا۔ انہوں نے رخشی کے پاس بیٹھتے ہوئے کمبل نیچے کی طرف سرکایا۔ رخشی نے منہ ان کی طرف پھیرا، اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

”کیا ہوا رخشی؟ کیوں رو رہی ہو؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ “ مس مہوش نے کسی قدر پریشانی سے کہا۔

”نہیں مس! کسی نے کچھ نہیں کہا“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ مس مہوش نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے اس کے رونے کی وجہ جاننا چاہی مگر رخشی کچھ نہیں بتا رہی تھی بس رو رہی تھی۔ اصرار پر اس نے صرف اتنا کہا۔ ”مس میں نے ایک خواب دیکھا ہے“

مس مہوش نے لڑکیوں کو ناشتے کے لیے میس میں بھیج دیا۔ پھر آیا باجی سے اس کا ناشتہ ڈورم میں ہی منگا لیا۔

رخشی کو اس سکول کے بورڈنگ میں آئے ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اسے اس کے دادا قمرعباس یہاں داخل کروانے لائے تھے۔ اس پر فضا ہل اسٹیشن پر یہ ادارہ قیام پاکستان سے قبل گوروں نے بنایا تھا۔ 1947 کے بعد سے اس کا انتظام و انصرام پاکستانیوں کے ہاتھوں میں تھا

تین ہفتے پہلے کی بات ہے سکول کی پرنسپل میڈم ندرت کے آفس میں ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا۔ اس کی عمر ستر یا پچھہتر برس رہی ہوگی۔ ہلکی ہلکی سفید مونچھیں اور سر کے بال مکمل طور پر سفید ہو چکے تھے لیکن جسمانی طور پر وہ کافی فٹ نظر آتا تھا۔ متناسب جسم اور مضبوط ہاتھ پاؤں کا مالک۔

اس کے ساتھ ایک نو دس برس کی لڑکی تھی۔ گول گول چہرے اور بڑی بڑی آنکھوں والی۔ سرخ و سپید رنگت اور کالے بال۔ کچھ اداس لگ رہی تھی۔ پرنسپل صاحبہ نے مہوش سے ان کا تعارف کرایا پھر رخشی کو انٹری ٹیسٹ کے لیے کنٹرولر امتحانات مس طوبیٰ کے کمرے میں بھجوایا گیا۔ مہوش سمجھ گئی تھی کہ یہ سب ضابطے کی کارروائی تھی۔ پرنسپل صاحبہ اسے داخلہ دے چکی تھیں۔ انہوں نے اسی وقت اکاؤنٹ آفس میں فون کر کے اس کی فیس وغیرہ بنانے کے لیے کہہ دیا تھا اور اب قمرعباس سے یونیفارم کی خریداری کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔

”یہ مس مہوش ہیں ہماری بورڈنگ انچارج“ پرنسپل صاحبہ نے تعارف کرایا۔ قمرعباس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
”میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن میری گزارش ہے کہ وہ باتیں محض آپ کی ذات تک محدود رہیں گی“

مہوش ہمہ تن گوش تھی۔ رخشی کے دادا دھیمی آواز میں دیر تک کچھ بتاتے رہے۔ مہوش نے ان کی ایک ایک بات ذہن نشیں کر لی تھی۔ اسی شام وہ رخشی کو بورڈنگ میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے لیے یونیفارم، کتابیں اور بورڈنگ کی ضروری چیزیں خرید لی گئی تھیں۔ پورے سال کی فیس یکمشت ادا کر دی گئی تھی اور پاکٹ منی کے نام پر اچھی خاصی رقم بھی مہوش کے حوالے کر دی گئی تھی تا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت پڑے تو مشکل نہ ہو۔

ان کے جانے کے بعد رخشی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے دادا جانے سے پہلے اسے پیار کرتے رہے اور کہتے رہے تھے کہ رونا نہیں یہاں سب لوگ تمہارا بہت خیال رکھیں گے۔ تم سے بہت پیار کریں گے۔ رخشی اس وقت اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتی رہی تھی مگر اب بند ٹوٹ گیا تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا رواں ہو گیا تھا۔ مس مہوش نے اسے تسلی دی۔ اس کے آنسو پونچھے پھر اسے اس کی ڈورم کی دیگر لڑکیوں سے ملوایا۔ وہ سب اس نئی بچی کے آنے پر بہت خوش تھیں اور اس کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3