کیا گرم ممالک کے لوگ سست اور کاہل ہوتے ہیں؟


کسی بھی کی ملک کی جغرافیائی حدود، تہذیب و تمدن اور علمی بساطت جیسے عوامل ملکی معاشی ترقی میں قلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ہم مختلف ممالک کی معاشی ترقی و تنزلی کے ترازو پر اس تجزیے کو پرکھیں تو حقیقت معاشی ترقی میں ان عوامل کی اہمیت کی تردید کرتی ہے۔

مونٹسقیو کے مشاہدے کے مطابق گرم ممالک عموما معاشی بحران کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ سست اور کاہل ہوتے ہیں۔ جدت پسندی کی طرف رحجان نہ ہونے کی وجہ سے آمر حکمرانی کرتے ہیں جو ملکی استحکام کی بجائے صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ جبکہ معتدل موسم والے ممالک کے باشندے محنتی و جدت پسند ثابت ہوتے ہیں اور معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ مونٹسقیو کے اس نظریے کو جیفرے سچ کے نظریے سے تقویت ملتی ہے جس کا کہنا ہے کہ گرم ممالک کے لوگ ملیریا جیسی مہلک بیماری کا شکار ہونے کی وجہ سے کمزور ہو جاتے ہیں اور کام کرنے کی لیے توانائی کھو دیتے ہیں۔

مزید سخت گرمی کی بدولت زمینی پیداواری صلاحیت بھی ضعیف ہو جاتی ہے۔ لیکن مونٹسقیو کا یہ نظریہ گرم علاقے سنگاپور اور ملائشیا کی ترقی دیکھ کر لاجواب ہو جاتا ہے۔ مزید، افریقی ممالک میں جنوبی افریقہ کی ترقی بھی اس نظریے کی تردید کرتی ہے۔ اگر ہم چار صدیاں پیچھے چلے جائیں تو میکسیکو اور پیرو ایزڈیک اور ان کا جیسی قدیم تہذیب کی بدولت نارتھ امریکہ کی نسبت زیادہ مستحکم نظر آتے ہیں کیونکہ اِن کے پاس لکھنے کی سکت اور خرچ کرنے کو پیسہ تھا جبکہ نارتھ امریکا (یو ایس اے و کینیڈا) کے پاس سٹون ایج تہذیب تھی جو لکھنے کے ہنر سے ناواقف اور پیسہ خرچنے کی استطاعت سے محروم تھے۔ لیکن آج سینٹرل امریکہ (پیرو، میکسیکو) غریب ممالک کی سرِ فہرست میں ہیں اور نارتھ امریکہ کا شمار امیر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ روشن مثال نوگیلز کی ہے جس کی جغرافیائی حدود یکجا ہیں ماسوائے یو ایس اے اور میکسیکو بارڈر کے۔

لیکن نوگیلز ایریزونا معاشی طور پر مستحکم، ضروریات زندگی سے لبریز اور جہموری نظام کی بدولت خوشحال نظر آتا ہے جبکہ نوگیلز سونیرو (جو کہ میکسیکو کی حدود میں آتا ہے ) معاشی و معاشرتی طور پر بد حالی کی ایک مایوس تصویر اجاگر کرتا ہے۔

جعفرے سچ کا نظریہ بذات خود غریب ممالک کی نا اہلیت اور لاچاری کی نمائندگی کرتا ہے۔ ملیریا جیسی بیماری دراصل اس بات کی ضامن ہے کہ حکومت لوگوں کو صحت کی سہولیات پہنچانے سے قاصر ہے۔ ملیریا کی وجہ سے لوگ کاہل نہیں بلکہ اس ملک کی غربت کی وجہ سے ملیریا طاقتور نظر آتا ہے وگرنہ انگلینڈ کو اٹھارویں صدی میں جب صحت کے خطرات لاحق ہوئے تھے تو انہوں نے ایک خطیر رقم صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے میں خرچ کی تھی اور آج ان کی صحت یابی کا تناسب بہت بہتر ہے۔

جعفرے سچ کی دوسری تھیوری بھی معاشی ترقی کی تردید کرتی ہے۔ زمینی پیداواری صلاحیت میں کمی پیداوار بڑھانے کے لیے موثر اقدامات نہ لینے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کرنے اور حکومت کی زراعت شعبے میں عدم دلچسپی کی بدولت ہے نا کہ گرمی کی وجہ سے۔ ہاں، ایک وجہ ضرور ہے کہ جغرافیائی حدود اس وقت ضرور اہمیت رکھتی جب کوئی ملک دوسرے ملک کی حدود کی خلاف ورزی کرے۔ جس طرح امریکہ نے افغانستان، اسرائیل نے فلسطین اور انڈیا نے کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں ہیں، لیکن در حقیقت یہ بھی پسماندہ ممالک کی بد قسمتی ہے نہیں تو ملک طاقتور اور اسلحہ سے لیس ہو تو دوسرے ممالک ایسی جرات نہیں کرتے۔

کسی بھی ملک کی ثقافت و تہذیب اس ملک کے باشندوں کے رہن سہن کی عکاسی کرتی ہے جبکہ تہذیب کی بنا پر معاشی استحکام کی امیدیں لگانا بے مقصد ہیں۔ 1950 ء میں کورین لڑائی سے پہلے کورین لوگوں کی جغرافیائی حدود اور تہذیب میں رتی برابر فرق نہ تھا۔ 1862 ء میں نوگیلز کی علیحدگی سے پہلے نوگیلز کی تہذیب یک مشترک تھی۔ لیکن دیکھتے دیکھتے جنوبی کوریا امریکی انتظامیہ کے زیرِ اثر سرمایہ داری کے نظام سے ترقی کی شاہراوں پر گامزن ہو جاتا ہے تو شمالی کوریا کمیونزم کی بنا پر معاشی تنزلی کا شکار ہو کر تاریکی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

نوگیلز اریزونا امریکہ کی اچھی گورننس کے پیشِ نظر ایک بہتر ملک بن کے ابھرا تو نوگیلز سونیرو میکسیکو کے زیر اثر گہری کھائی میں جا گرا۔ سولھویں صدی میں لوتھر کے ایک سوالنامے پر پروٹسٹنٹ چرچ کے خلاف بغاوت کر کے انگلینڈ اور نیدر لینڈ کو دنیا کے معاشی مستحکم ممالک کی صف میں کھڑا کر دیتا ہیں تو دوسری طرف فرانس کیتھولک عقائد پر چل کر اپنی مثال آپ قائم کر دیتا ہے۔ مڈل ایسٹ ممالک جن کی تہذیب پندرہ سو سال پرانی ہے، صرف وہی ممالک امیر ہیں جن کے پاس تیل کے ذخائر ہیں اور مصر شام جیسے ممالک سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اب اداسی مایوسی کا کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔

افریقی ممالک میں جزیرہ کونگو قدیم تہذیب کی بدولت بھی معاشی استحکام حاصل نہ کر سکتا۔ ایسا نہیں کہ ان کی تہذیب لوگوں کو غلام بنانے کے لیے اسلحہ خریدنے کی جرات تو دیتی ہے لیکن صنعت بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی اجازت سے انکار کرتی ہے۔ ارجنٹائن اور چلی میں پیرو اور بولینیا کے مقابل مقامی لوگوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن معاشی طور پر زیادہ مضبوط ہیں۔ ہم تہذیب کی بنا پر کسی ملک کو معاشی طور پر امیر یا غریب نہیں بنا سکتے۔

کیا علمی بساطت معاشی ترقی و تنزلی کی اصل وجہ ہے؟

شاید نہیں، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ غریب ممالک کے حکمران جاہل ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ ملک کو خوشحال کیسے بنایا جاتا ہے۔ معاشی ترقی کا انحصار معیشت حکمت عملی پر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ملک میں اچھے معیشت دان نہ ہوں مسئلہ یہ ہے کہ اچھے معیشت دان کی حکمت عملیوں پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا جس کی وجہ معاشرے میں سیاسی اور معاشی اداروں کی جانب سے ان حکمت عملیوں کی مدافعت ہے۔

آپ چائنا کی مثال دیکھ لیں 1950 ء میں ماؤ زے تانگ انقلاب لاتا ہے لیکن 1960 ء تک ملک کی معاشی حالت نہیں بہتر کر سکا۔ لیکن ماؤ زے تنگ کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ڈینگ زیاؤپنگ کے دور میں کافی ترقی نظر آتی ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دس سال پہلے ملک میں عقلمند لوگ نہیں تھے یا دس سال میں انہوں نے یہ سیکھ لیا کہ معیشت کو بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ مزید یہ کہ میکسیکو نے وہ حکمت عملیاں کیوں اختیار کیں جو کہ ان کو مزید معاشی تنزلی کی طرف لے جاسکتی تھیں حالانکہ کینیڈا نے ایسا نہیں کیا؟

معاشی ترقی و تنزلی کا انحصار صرف اور صرف ملکی معاشی اداروں اور سیاسی اداروں کی کارکردگی ہوتا ہے۔ اگر ادارے بغیر کسی دباؤ کے ایسی حکمت عملیاں اختیار کریں گے جو کہ کسی مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کی بجائے سارے ملک کے عوام کو مستحکم کرے تو ہی ملک معاشی طور پر ترقی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).