قربانی مگر خواہشوں کی


عید قرباں کی آمد آمد ہے۔ ہر کوئی قربانی کے جانوروں کی خریداری میں مصروف۔ کسی کے گھر قربانی کے جانور آچکے اور کئی ابھی بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف۔ یہ عید ہمیں حقیقی معنوں میں صبر، ایثار، اللہ کی رضا پہ سر تسلیم خم کرنے کا درس دیتی ہے۔ کہ کیسے ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے لختِ جگر کو اللہ کی رضا کے لئے قربان کرنے کے لئے ایک بار بھی نہ سوچاکہ یہ میرا مرادوں مانگا بیٹا ہے۔ جسے اللہ نے مجھے بڑھاپے میں عطا کیا۔

میں اسے کیون قربان کروں۔ اے اللہ اس کے بدلے کچھ اور بھی تو قربان کرسکتا ہوں۔ اور نہ اسمعٰیل علیہ السلام نے سوچا کہ میرا باپ مجھے ہی کیوں ذبح کرنے کے لئے لے جا رہا ہے۔ اللہ کو ان باپ بیٹے کہ اطاعتِ خداوندی کرنے کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک ان کی یاد میں جانور قربان کرنے کا حکم دے دیا۔ جانور قربان کرنا سنتِ ابراہیمی ہے۔ اس عید کو عید قرباں بھی کہتے ہیں اور عیدِ ایثار بھی۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ قربانی کرنے کارواج بڑھتا جارہا ہے اور اس میں سے ایثار کا جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے۔

گو کہ بہت سارے لوگوں کو میری یہ بات بُری لگے گی لیکن حقیقت یہی ہے۔ عید قریب آئی تو قربانی کے جانور کا گوشت مانگنے والوں کی ایڈوانس بکنگ شروع ہو چکی ہے۔ آج میرے گھر میں ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں قربانی کرنی ہے؟ میں نے کہا جی بالکل۔ تو وہ کہنے لگیں میرے لئے قربانی کا گوشت رکھنا۔ اور سری پائے قصاب کو دے دینا۔ اس کو کہنا کہ نمبر لگا دے۔ اور اس کا فون نمبر آپ مجھے دے دینا۔ میں نے کہا کیا مطلب مجھے سمجھائیں۔ وہ خاتون کہنے لگیں کہ قصاب اپنے فریزر میں سری پائے پر نمبر لگا کر رکھ لیتے ہیں۔ اور ہم گھر والوں سے اس کا فون نمبر لے لیتے ہیں۔ بعد میں جاکر قصاب کو نمبر بتاکر سری پائے اس سے صاف کروالیتے ہیں۔ یوں قصاب کو سری پائے صاف کرنے کی اجرت مل جاتی ہے اور ہم لوگوں کو سری پائے کھانے کو۔

تب میں سوچ میں پڑگئی کہ اس عورت کو کیا جواب دوں۔ کہ بکرے کے گردے کلیجی کے لئے تو مصالحہ پہلے سے تیار کر کے رکھا ہوتا ہے کہ جونہی قصاب بکرا ذبح کرے تو سب سے پہلے گردے کلیجی بنا کر دے تاکہ سب کلیجی کھا کر سنت پوری کریں۔ بکرے کی ران تو میاں صاحب کی بہن کے گھر جائیں گی کہ یہ ان کی سسرال میں عزت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اور دوسری سالم ران ہم نے روسٹ کرنی ہوتی ہے۔ سری پائے چونکہ میرے سسر کو بہت پسند ہیں۔ اس لئے ان کو ساتھ ہی صاف کرنے والی بھٹی میں پہنچا دیا جاتا ہے۔

کچھ گوشت کا ہم قیمہ بنوا لیتے ہیں۔ اور جو گوشت بچ جاتا ہے اس کو دنوں کے حساب سے تقسیم کر کے شاپرز میں ڈال کر نام لکھ کے رکھ دیا جاتا ہے۔ کہ یہ روسٹ کے لئے۔ یہ نمکین پکے گا وغیرہ۔ تاکہ پکانے میں آسانی رہے۔ جو گوشت دوسروں کے گھروں سے آتا ہے اس سب کا قیمہ بنوالیا جاتا ہے تاکہ باربی کیو کے لئے گرینڈ پارٹی کی جا سکے۔ کچھ برائے نام گوشت ساتھ والے ایک دوگھر میں بھی بھیج دیا جاتا ہے کہ پہلا حق تو ہمسائیوں کا ہے۔

تاہم غریبوں کا حصہ تو ہم کبھی نہیں بھولتے۔ جو ہڈیاں، چربی اور چھیچھڑے بچ جاتے ہیں ان کو ایک بڑے سے تھال میں سنبھال کر رکھ لیا جاتا ہے کہ آخر غریبوں کا بھی حق ہے۔ اور سب سے پہلے ان کا حصہ ہی رکھنا چاہیے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی میں عیدِ ایثار کے موقع پر قربانی کا گوشت مانگنے آئی اس غریب عورت کی بے بسی پر لکھوں یا اپنی بے حسی پر۔ یہ تو ہے میرے جیسے گھروں کی کہانی۔ اب آتے ہیں ان گھروں میں جو قربانی کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں۔

مگر ان کا مطلب قربانی سے زیادہ دکھاوا ہوتا ہے 30، 30 بکرے، 10 بیل ایک دو اونٹ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے شوق سے خریدے جانوروں کی تعداد اور فخر سے ان کی مالیت بتاتے ہیں۔ اور انتہائی نخوت سے یہ کہ ہم تو قربانی کا گوشت نہیں کھاتے۔ ہم تو سارا گوشت غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ڈنر باہر فائیو سٹار ہوٹل میں کرتے ہیں۔ یہ اسٹیٹس کے مارے لوگ قربانی کے جانور پر بے تحاشا پیسہ لگاتے ہیں۔ اور غریب بستیوں میں بانٹ دیتے ہیں۔

یوں بظاہر تو یہ بہت نیکی کا کام کرتے ہیں۔ کہ جو لوگ بے چارے سارا سال گوشت کی لذت سے محروم رہتے ہیں۔ وہ جی بھر کے گوشت کھالیتے ہیں۔ لیکن یقین کریں قربانی کرنے والے یہ دونوں طبقات ہی غلط ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو ایک دو بکرا کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اور پھر گوشت بانٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور وہ بھی جو بیش قیمت جانور بہت بڑی تعداد میں خرید کر شو آف کے لئے قربانی کر تے ہیں۔ اگر ہم۔ بیس بیس جانور جن کی قیمت لاکھوں روپے بنتی ہے خرید کر قربانی کریں۔

جبکہ ہمارے گھر میں کُل چھ افراد ہوں۔ تو بیس جانور کی قربانی کر کے ہم سنت ادا نہیں کرتے دنیا دکھاوے کو کرتے ہیں۔ قربانی سنت ہے۔ دکھاوا نہیں۔ مفتیانِ کرام پتہ نہیں اس پہ کیا فتویٰ دیں لیکن میرے دل کا فتویٰ ہے کہ قربانی کریں۔ بخل یا اسراف نہیں۔ ایک دو جانور قربان کرنے والے دل کو بڑا کریں اور زیادہ جانور قربان کرنے والے دماغ۔ اگر گھر کے افراد کے مطابق قربانی کی جائے تو امراء، رؤوسا جنھوں نے صرف شو مارنے کے لئے قربانی کرنا ہوتی ہے وہ گھر کے افراد کے مطابق جانور قربان کریں اور باقی رقم جو قربانی کے لئے مختص کر رکھی ہے اس کو کسی ضرورت مند کو دے کر اس کی ضرورت پوری کردیں۔

ایکسٹرا لاکھوں روپوں سے کسی کا روزگار شروع ہو سکتا ہے۔ کسی کے علاج پر رقم خرچ ہو سکتی ہے۔ کسی بھی ضرورت مند کو دیے جا سکتے ہیں۔ یہ اسراف کرنے سے زیادہ افضل ہے اور جو بخل کر کے اپنے فریزر بھر لیتے ہیں وہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق بانٹیں۔ تاکہ قربانی کا اصل مقصد پورا ہو۔ قربانی کیجئے۔ یہ سنت ابراہیمی ہے۔ سنت ضرور ادا کریں۔ لیکن اللہ کی رضا کے لئے، دنیا دکھاوے کے لئے نہیں۔ ابراہیم علیہ اسلام اللہ کی رضا کے لئے بیٹا قربان کر رہے تھے۔ کیا ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنی اپنی خواہشوں کو قربان نہیں کر سکتے؟ ۔ تو پھر کیا خیال ہے اس سال قربانی کے جانور کے ساتھ اپنی اپنی بے لگام ہوتی منہ زور خواہشوں کو بھی قربان کردیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).