آرٹیکل 370 کا خاتمہ: انڈین میڈیا میں جشن لیکن کشمیری کہاں ہیں؟


انڈیا میں جشن

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی شق 370 کو ختم کیے جانے کے فیصلے کے بعد پورے انڈیا میں جشن کا سماں ہے

انڈین پارلیمنٹ کے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی شق 370 کو ختم کیے جانے کے فیصلے کے بعد سے پورے ملک اور میڈیا میں جشن کا سماں ہے۔

مودی حکومت کے اس فیصلے کو تاریخ ساز قدم قرار دیا جا رہا ہے جبکہ وزیر داخلہ کا موازنہ انڈیا کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل سے کیا جا رہا ہے جنھوں نے آزادی کے بعد رجواڑوں اور نوابوں کی سیکڑوں ریاستیں انڈیا میں ضم کی تھیں۔

خصوصی حیثیت دینے والی شق کے خاتمے پر سوشل میڈیا پر پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا اور ٹی وی اور اخباروں میں کشمیر کے سنہری مستقبل کے خاکے کھینچے جانے لگے۔

’کشیمراب آزاد ہوا‘، ‘کشمیرانڈیا کا اٹوٹ حصہ اب بنا‘ اور اس طرح کی کئی سرخیوں سے انڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینل بھر گئے۔

بدھ کو حکومت کی جانب سے جاری ایک ویڈیو کو انڈیا کے ٹی وی چینلز ہر پروگرام میں دکھا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سینکڑوں افراد گرفتار

کشمیر: ’کسی کو نہیں پتا کہ کیا چل رہا ہے، ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں‘

کشمیر میں سکیورٹی لاک ڈاؤن کے باوجود مظاہرے

اس ویڈیو میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈوول جنوبی کشمیر کے شوپیاں قصبے میں بند دکانوں کے درمیان چار پانچ مقامی لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے اور کشمیر کے بہتر مستقبل کے بارے میں بات کرتے دکھائے گئے ہیں۔

کشمیر

کیمرے کو اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ سکیورٹی کے اہلکار دکھائی نہ دیں اور سب کچھ نارمل لگے۔

اس ویڈیو کا مقصد انڈیا کے لوگوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے اور حکومت کے فیصلے کے بعد صورتحال پوری طرح معمول پر ہے۔

دفعہ 370 کو یکسر ختم کیے جانے کا فیصلہ اتنا بڑا اور غیر متوقع تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔ کئی اپوزیشن جماعتوں نے قوم پرستی کی اس افراتفری میں اس اہم فیصلے میں حکومت کا ساتھ دیا۔ سب سے بڑی جماعت کانگریس کے اندرحکومت کے اس فیصلے پر پھوٹ پڑگئی۔

پورے ملک میں ایک ایسا تاثر پیدا ہوا جیسے انڈیا نے کوئی جنگ جیت لی ہو۔ لوگوں کو لگا کہ مسلہ کشمیر اب ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا ہے۔

کشمیر

لیکن میڈیا کے اس جشن میں کشمیر کی آواز کہیں نہیں۔ آرٹیکل 370 ختم کرنے سے پہلے کشمیر کے اہم رہنماؤں عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سجاد لون اور دوسرے رہنماؤں کو گوفتار کر لیا گیا۔ جموں کشمیرمیں دفعہ 144 لگا کر کرفیو جیسی صورتحال پیدا کر دی گئی۔ اسکول، دفاتر، تعلیمی ادارے سب بند کر دیے گئے۔ جہاں جہاں سکیورٹی فورسز نہیں تھیں وہاں بھی سکیورٹی کو تعینات کر دیا گیا۔

گزشتہ پیر سے پوری وادی لاک ڈاؤن ہے۔ وادی کے ستر لاکھ لوگ سکیورٹی کے ایک ایسے حصار میں ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، لینڈ لائن اور کیبل ٹی وی نیٹ ورک سب منقطع ہے۔

میڈیا میں کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ کشمیری کس حال میں ہیں۔ ان کی بستیوں میں کیا ہو رہا ہے؟ نقل و حمل اور رابطے کے سارے ذرائع منقطع ہونے سے وہ کس طرح جی رہے ہیں۔ کیا وہ خوف میں جی رہے ہیں؟

ان سوالوں کو یہاں کوئی نہیں جاننا چاہتا۔ جس طرح کی پراسرارخاموشی کشمیر میں چھائی ہوئی ہے اسی طرح کا سناٹا یہاں میڈیا میں کشمیریوں کے بارے میں چھایا ہوا ہے۔

کیا کشمیرکے ستر لاکھ باشندے خاموش ہیں یا ان تک پہنچنے کے تمام راستے بند ہیں یا پھران کی آواز انڈیا میں لوگ سننا نہیں چاہتے؟ جو بھی ہو کم ازکم میڈیا کے جشن میں ان کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔

آج جمعے کا دن ہے۔ ابھی معلوم نہیں کہ حکومت اجتماعی نماز کی اجازت دے گی یا نہیں۔ یہ بہت اہم دن ہے کیونکہ اگر نماز کی اجازت ملتی ہے تو اتوار کے بعد پہلی بار لوگ مساجد میں اجتماعی طورپرجمع ہوں گے اور چار روز کے بعد ایک دوسرے سے مل سکیں گے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp