ٹرمپ کی ثالثی کی ”بڑھک“ نے کام خراب کیا


عمران خان کا دفاع میری ذمہ داری نہیں۔ ذاتی طورپر وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ کئی بار ان سے 2008 تک تفصیلی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ان کے اندازِ سیاست سے مگر متاثر نہ ہوا۔ اکثر تنقید کی زد میں رکھا اور اس باعث ”لفافہ“ ہونے کے طعنے بھی برداشت کیے۔ ان کے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے کے بعد ”شاہ سے زیادہ وفادار“ مارکہ مصاحبین نے چند اقدامات سے مجھے ”سبق سکھانے“ کی کوششیں بھی کیں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کا ذاتی اعتبار سے ان کوششوں سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان سے گلہ کی گنجائش ہی نہیں۔

مذکورہ بالا تمہید کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ منگل اور بدھ کے روز جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا، میری اپوزیشن کے چند رہ نماؤں سے پارلیمانی راہداریوں میں سرگوشیوں میں گفتگو ہوئی، ان رہ نماؤں میں سے تین ا فراد ماضی کی حکومتوں میں چند ایسے عہدوں پر فائز رہے ہیں جہاں ”حساس معاملات“ تک بھی کافی رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔

ان رہ نماؤں کا اصرار تھا کہ وزیر اعظم کو ”فروری۔ مارچ“ کے مہینوں میں چند ”غیر ملکی سربراہوں“ کے ذریعے بتادیا گیا تھا کہ اپریل۔ مئی میں ہوئے انتخابات جیتنے کے بعد نریندرمودی بھارتی وزیر اعظم کے منصب پر لوٹتے ہی مقبوضہ کشمیر کی ”خصوصی خود مختاری“ کا وعدہ کرتے آرٹیکل 370 کو ختم کردے گا۔ پاکستان کو اس فیصلے کی مزاحمت نہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

شاید ان رہ نماؤں کے پاس موجود ”اطلاعات“ کی بدولت ہی اپوزیشن اراکینِ قومی اسمبلی اور سینٹ کی بے پناہ اکثریت پارلیمان کے مشترکہ ایوان میں تقریر کرتے ہوئے اشاروں کنایوں میں یہ تاثر پھیلاتی رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کو بخوبی علم تھا کہ نریندرمودی آرٹیکل 370 کے بارے میں کیا کرنے جارہا ہے۔

جن لوگوں کو ”فروری۔ مارچ“ والی کہانی پر شاید اعتبار نہیں تھا وہ بھی اس شک کا اظہار کرتے رہے کہ 22 جولائی کے روز ہوئی ٹرمپ۔ عمران ملاقات کے دوران 370 والی بات گوش گزارکردی گئی تھی۔ امریکی صدر کی جانب سے کشمیر پر ”ثالثی“ کاذکر ”اچانک“ نہیں ہوا۔

میرے صحافی دوستوں کی اکثریت بھی پارلیمانی کیفے ٹیریا میں بیٹھی یہ کہانی دہراتی رہی۔ میرے لئے زیادہ پریشان کن بات یہ بھی تھی بیشتر صحافیوں اور سیاست دانوں کی دانست میں پاکستان فی الوقت مودی کی جانب سے آئے فیصلے کو ”ہضم“ کرنے کو مجبور ہے۔ ہماری معاشی صورتحال بہت دُگرگوں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا شکنجہ بھی ہے۔ ہمارے لئے 370 کے خاتمے کے بارے میں شوروغوغا ؔکرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے میں نے اس رائے سے اختلاف کیا۔

اپوزیشن کے ان رہ نماؤں سے تھوڑی تلخی بھی ہوگئی جنہیں کسی زمانے میں ”حساس“ معاملات تک رسائی رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نریندرمودی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اس کے خاتمے کے لئے لیکن وہ مناسب وقت کا انتظار کررہا تھا۔ یہ ہرگز طے نہیں ہوا تھا کہ اگست 2019 کے آغاز ہی میں اسے ختم کردیا جائے گا۔ اس سال کے ”فروری۔ مارچ“ میں لہذا پاکستانی وزیر اعظم کو ذہنی طورپر تیار کرنے کا امکان ہی موجود نہیں تھا۔

اندھی نفرت وعقیدت میں مبتلا ہوئے اگر ہم ڈرامے کے سکرپٹ کی طرح لکھے کسی ٹائم ٹیبل کے بارے میں اصرار کرتے رہیں تو میرے پاس اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا کی کئی دنوں سے مستقل چھان پھٹک کے بعد میں نے اس ملک کی سیاست سے آگاہ چند افراد سے انٹرنیٹ کے ذریعے گفتگو بھی کی ہے۔ بہت سوچ بچار اور تھوڑی تحقیق کے بعد میں بہت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ نریندر مودی کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لئے انگریزی محاورے والی سپیس، امریکی صدر نے 22 جولائی کے روز ”ثالثی“ والے ریمارکس کے ذریعے فراہم کی۔ ”ثالثی“ کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نریندرمودی نے جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی ایک ملاقات کے دوران اس سے کشمیر کے ضمن میں یہ کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ منظرِ عام پر آنے کے چند ہی منٹ بعد بھارتی وزیر خارجہ کے ترجمان نے اس کی تردید کردی تھی۔

24 جولائی کی صبح بھارتی وزیر خارجہ خصوصی طورپر راجیہ سبھا کے اجلاس میں گیا۔ وہاں اس نے محتاط سفارتی زبان میں ٹرمپ کے اس دعویٰ کی تردید کردی کہ نریندرمودی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ بھارتی میڈیا میں مودی کے ناقدین اور کانگریس کے رہ نما اصرار کرتے رہے کہ چونکہ نریندرمودی کا نام لیتے ہوئے ثالثی کا دعویٰ ہوا ہے، اس لئے بھارتی وزیر اعظم کو بذاتِ خود پارلیمان میں آکر اس کی تصدیق یا تردید کرنا ہوگی۔

نریندرمودی مگر ضد کی حد تک خاموش رہا۔ اس کے کارندوں نے بھارتی میڈیا اور اپوزیشن کے رہ نماؤں سے خفیہ رابطوں کے ذریعے ”ثالثی“ والے دعویٰ کے بارے میں خاموشی بھی مینیج کرلی۔ ٹرمپ کے ثالثی والے دعویٰ کے ضمن میں جو حیران کن خاموشی دیکھنے کو ملی اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا کہ نریندرمودی کشمیر کے حوالے سے ”کچھ بڑا“ کرنے جارہا ہے۔ میرے شبے کو گویا تقویت دینے کے لئے آج سے دو ہفتے قبل بھارتی حکومت نے خصوصی طیاروں کے ذریعے بھارتی فوج اور نیم فوجی اداروں کے تازہ دم دستوں کو مقبوضہ وادی میں پہنچانا شروع کردیا تھا۔

افواہوں کے سیلاب نے پاکستان ہی کو نہیں دُنیا بھر کو اس کے بعد آرٹیکل 370 اور 35۔ A کے خاتمے کے اعلان کے لئے تیار کرنا شروع کردیا اور اس ہفتے کے آغاز میں اعلان ہوگیا۔ یہ اعلان ہونے کے بعد ایک بھارتی صحافی نے دعویٰ کیا کہ مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی۔ اجیت دوول ”نے امریکی ہم منصب۔ جان بولٹن۔ کو فروری کے مہینے میں پاک۔ بھارت کشیدگی کے سنگین ترین مرحلوں کے دوران آگاہ کردیا تھا کہ آرٹیکل 370 ختم کردیا جائے گا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ایلس ویلز نے جو ان دنوں پاکستان میں ہے اس دعویٰ کی واضح الفاظ میں تردید کردی ہے۔ میری خواہش ہے کہ محترمہ ویلز کے اس بیان کے بعد ہمیں“ فروری۔ مارچ ”والی داستان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔

370 کے خاتمے کے پسِ منظرکو سمجھنے کے لئے ہمیں اس پورے معاملے کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ میری ناقص رائے میں پاکستان کے وزیر اعظم کو 22 جولائی کے روز اپنے دائیں ہاتھ بٹھا کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی صدر نے ثالثی کا جس انداز میں ذکر کیا اس نے مودی کو مشتعل کردیا۔ بھارت۔ امریکہ تعلقات کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے جہاں تجارتی خسارہ بھارت کے بے پناہ حق میں ہے مودی ٹرمپ کو برملا ”جھوٹا“ پکارنے کی جرأت آزمانے کی سکت سے محروم تھا۔

اس نے ڈھٹائی بھری خاموشی اختیار کی اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ کشمیر کے حل کے لئے کسی ”تیسرے“ سے ثالثی کا طلب گار نہیں تھا آرٹیکل 370 کے خاتمے کی تیاری شروع کردی۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے ایک حوالے سے اس کی خاموشی کا ”احترام“ کیا ہے۔ وہ مطمئن رہی کہ امریکی صدر کو بھارتی وزیر اعظم نے ”جھوٹا“ نہیں پکارا۔ اسی باعث آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان ہوا تواسے بھارت کا ”اندرونی معاملہ“ قرار دے کر گویا نظرانداز کردیا گیا۔

عمران خان سے اندھی نفرت میں مبتلا ہوئے افراد ٹھوس حقائق پر مبنی تناظر کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ یہ بات بھلادیتے ہیں کہ سیاست میں بے ساختگی بھی ہوتی ہے۔ خواہش اور ارادے جو بھی رہے ہوں، ان پر عملدرآمد کے لئے مناسب ماحول کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں 22 جولائی کو عمران خان کو دائیں ہاتھ بٹھاکر ثالثی کی بڑھک لگادی اور مودی کو اس کی تمنا والا ماحول میسر ہوگیا۔ کہانی اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).