ٹرن اوور پر دو فیصد ٹیکس تاجر برادری کا معاشی قتل عام ہے


آج صبح ٹیکس کے حوالے سے یہ خبر پتہ چلی کہ چھوٹے دکانداروں کے لیے ایف بی آر کی طرف سے دو فیصد فکسڈ ٹیکس، ٹوٹل ٹرن اوور پر، کی پالیسی متعارف کی گئی ہے اور تاجر برادری کو پندرہ دن کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ پندرہ دن میں اس پالیسی کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں۔ ٹوٹل ٹرن اوور پر دو فیصد ٹیکس کا سیدھا اور آسان الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ جتنا آپ کما رہے ہیں اس سے تھوڑا سا زیادہ، تھوڑا سا کم یا پھر اتنا ہی آپ ٹیکس بھی دیں گے۔ آئیں ایک آسان مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، باقی کاروباروں کا بھی کم و بیش یہی فارمولہ ہے۔ (نوٹ :میرا اپنا تعلق بھی اسی کاروبار سے ہے ) ۔

اسلام آباد میں سیمنٹ کی بوری کی ریٹیل میں آج کی قیمت پانچ سو پچپن روپے ہے اور ہول سیل میں پانچ سو پچاس روپے ہے۔ ریٹیل میں اس پر منافع دس سے پندرہ روپے ہوتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اور ہول سیل میں زیادہ سے زیادہ منافع دس روپے ہے۔ اب اگر آپ ایک سو بوری بیچتے ہیں تو ٹرن اوور رہا پچپن ہزار روپے اور منافع رہا ہزار سے تیرہ سو روپے۔ یاد رہے کہ ایک سو بوری بیچنے پر آپ فی بوری زیادہ سے زیادہ دس روپے ہی کما سکتے ہیں کیونکہ آج کل اس شعبے سمیت ہر شعبے میں مقابلہ سخت ہے۔ ایک گاہک کے پاس دس دس ڈیلرز پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ سیمنٹ ہم سے لے لیں اور قیمت توڑ کے دیتے ہیں۔

اسی طرح ہزار بوری پر ٹرن اوور پانچ لاکھ پچاس ہزار اور منافع بنا دس ہزار روپے سے تیرہ ہزار روپے۔ اسی طرح دو ہزار بوری بیچنے پر ٹرن اوور رہا گیارہ لاکھ روپے اور منافع رہا بیس ہزار روپے سے پچیس ہزار روپے۔ اب گیارہ لاکھ روپے کے ٹرن اوور پر دو فیصد کا مطلب تو سیدھا سیدھا بیس ہزار روپے سے پچیس ہزار روپے ٹیکس ہے۔ تو جب آپ نے کمایا ہی بیس ہزار سے پچیس ہزار ہے اور ٹیکس بھی آپ پر بیس ہزار سے پچیس ہزار بنا تو تاجر کی اس ساری محنت کا مقصد؟ پھر آپ گھر کیا لے کر جائیں گے؟ بیوی بچے کیا کھایں گے؟ دکان کا کرایہ کہاں سے دیں گے؟ بجلی کا بل کہاں سے بھریں گے؟

میرا خیال ہے کہ انجمن تاجران والے چھوٹے دکانداروں کا موقف بہتر انداز میں ایف بی آر کے سامنے پیش نہ کرسکے ( آج تک جتنے ٹاک شوز میں اس حوالے سے میں نے جو بحث دیکھی اس سے تو یہی لگا) یا پھر ایف بی آر کو یہ موقف پیش کرچکے لیکن ایف بی آر نے چھوٹے دکانداروں کے اس معاملے پر غور نہیں کیا۔ یہ ایک بہت سادہ معاملہ ہے کہ جسے ایک چھوٹا دکاندار بھی ایف بی آر کے سامنے بہتر انداز میں پیش کرسکتا ہے اگر اسے موقع دیا جائے۔

چھوٹے دکاندار کسی بھی ریاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثییت رکھتے ہیں۔ انہیں سادہ الفاظ میں ٹیکس کلیکٹر کہا جاتا ہے اور جس قسم کی پالیسی ان کے لیے وضع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ان کا معاشی قتل عام ہے اور اس معاشی قتل عام کے بعد حکومت ٹیکس کلیکٹرز سے محروم ہوجاے گی۔ جس کا نتیجہ معاشی تباھی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ حکومت کی طرف سے تاجر برادری کو سرکاری ملازمین کی طرح کوئی بھی سہولت میسر نہیں۔ نہ ان کا علاج فری ہے نہ ان کی رہائش فری ہے نہ ان کی بجلی فری ہے اور نہ ہی ان کی پینشن ہے۔ حالانکہ یہ برادری حکومت کو سب سے زیادہ کما کر دیتی ہے اور بدلے میں ان کو حکومت سے طرف سے کچھ نہیں ملتا۔

ایک چھوٹا کاروباری ہونے کے ناتے میرے نزدیک حل یہی ہے کہ پچاس ہزار سے زائد منافع پر دو فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔ جیساکہ تنخواہ پر عائد کیا جانے والا ٹیکس ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی طرح ماہانہ پچاس ہزار تک کمانے والوں کو ٹیکس سے استثنا دیا جائے۔ پچاس سے ایک لاکھ کی ماہانہ آمدن والوں پر دو فیصد تک ٹیکس لگایا جائے۔

امید ہے کہ چھوٹے دکانداروں کے اس معاملے کو انجمن تاجران کی طرف سے دی گئی تجاویز میں شامل کیا جائے گا۔
آخر میں میرا حکومت سے ایک سوال ہے کہ یہ ٹیکس نافذ کرنے کے بعد کیا آپ ہمیں ویسی سہولیات دیں گے جو کہ سرکاری اہلکاروں کو میسر ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).