زندہ اور مردہ ضمیری کا ٹیسٹ میچ


سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا رونا رونے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ خود بھی اسی روایت سے جڑے ہیں۔ بلکہ اس روایت کے امین ہیں۔ اس ملک میں کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں رہی ہے۔ عوام میں ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ کی طرح نا پسندیدہ عمل ضرور ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کی بھی ذاتی مجبوریاں ہیں وہ بھی ماضی سے گزر کر حال میں جینا چاہتے ہیں وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران یہ رونا ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے روتے ہیں اور پھر جب عوام ان سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگے تو وہ خود ٹشو پیپر سے اپنے آنسو پونچھ کے اگلے انتخابات کے لیے کچھ ضروری گھوڑوں کا بھاؤ تاؤ کرنے نکل پڑتے ہیں۔

ہر بار کچھ لوگ چند لوگوں کا ضمیر زندہ کرتے ہیں اور مخالفین اس زندہ ضمیری کو مردہ قرار دے کر اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعد میں چند ضروری مصروفیات کی بناء پر پوسٹ مارٹم کا عمل داخل دفتر ہو جاتا ہے۔

ہم زیادہ دور نہیں جاتے مشرف دور سے شروع کرتے ہیں جب قاف لیگ پروان چڑھ رہی تھی تو ملک کے ہر کونے سے سیاستدانوں کے ضمیر جاگ رہے تھے اور وہ دھڑا دھڑ قاف لیگ کا رخ کر رہے تھے۔ اس زندہ ضمیری کا زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کو ہوا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ضمیر فروش پہچانے گئے۔ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کے ضمیر قومی اور ملکی مفاد میں جاگے اور وہ پیٹریاٹ ہو گئے۔ پھر اسی اسمبلی میں فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا بھی ضمیر جاگ گیا اور وہ قاف سے پیپلز پارٹی میں آ گئیں۔ پیپلز پارٹی نے شرف قبولیت بخشا اور ان کے ضمیر کے ساتھ ڈھال بن کر کھڑی ہو گئی۔

2007 کے الیکشن سے قبل اور ما بعد اسی کثرت سے ضمیر جاگنے لگے جس کثرت سے 2002 ء میں جاگ رہے تھے۔ وہی جانے پہچانے چہرے دوبارہ زندہ ضمیری کے ساتھ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا حسن بن گئے۔ 2008 کے الیکشن میں قاف لیگ کو قاتل لیگ کہا گیا اور ہمارے ضمیر شناخت لوگوں نے کہا کہ ہم اس جماعت کے لوگوں کو اپنے ساتھ نہیں ملائیں گے۔ پہلی بار لگا کہ شاید اب ضمیر فروشی و زندہ ضمیری کا معاملہ نپٹ جائے بلکہ کچھ لیڈران نے تھوک چاٹنے والا ڈائیلاگ بھی بولا تھا۔

پھر عوام نے دیکھا کہ قاف لیگ کے اندر فارورڈ بلاک بننے لگے اور وہی ضمیر فروشی و زندہ ضمیری کا راگ چھڑتا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے جاتے جاتے قریشی صاحب کا ضمیر بھی جگا دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کا ضمیر ان سے پہلے ہی جاگ چکا تھا، سردار آصف احمد علی صاحب کا ضمیر جاگ کر بھی سو گیا اور اپنے نبیل گبول صاحب کا ضمیر بھی جاگ کر نائن زیرو سدھار گیا۔ کشمالہ طارق، ماروی میمن وغیرہما۔ خیر چھوڑیے۔

2013 بھی زندہ ضمیری کا سال قرار پایا اور 2018 میں پھر زندہ ضمیری کی لہر چلی اور شاید آئندہ بھی یہ عمل جاری و ساری رہے۔ شیخ رشید صاحب بہتر جانتے ہیں۔

اب سینیٹ میں حالیہ انتخابات نے پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے میرے نزدیک یہ محض ایک بحث اور چند دن تک میڈیا کا موضوع ہی ہے کیونکہ ہر الیکشن سے قبل تمام پارٹیاں انہی لوگوں کے ضمیر جگانا چاہ رہی ہوتی ہیں جن کے ضمیر ہر بار الیکشن کے موسم میں جاگتے ہیں۔

گزشتہ سینیٹ انتخابات کے دوران کیا انہی سینیٹرز کے ضمیر نہیں جاگے تھے؟

کیا پیپلز پارٹی کو نہیں معلوم کہ پچھلی بار انہوں نے کس کس کا ضمیر جگایا تھا؟ کیا وہ آج مسلم لیگ نون کو بتانا پسند کریں گے؟ کیا مسلم لیگ نون سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں کوئی ایسا میثاق بنانا پسند کریں گی کہ آئیندہ ان زندہ ضمیروں کے ساتھ اپنے معاملات ختم کر سکیں۔ اور آئیندہ انہیں اپنی پارٹیوں میں ویلکم کرنے کی بجائے اپنا ٹکٹ کسی ایسے فرد کو دیں جس کا ضمیر مشکل حالات میں نہ بدلتا ہو۔

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی پارٹی ان بکنے والے گھوڑوں کو خریدنے میں دلچسپی نہ رکھتی ہو کیونکہ ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کی بجائے شخصی سیاست کو ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے اسی لیے شاید اس بار بھی پوسٹ مارٹم پورا نہ ہو سکے گا اور مردہ ضمیر بغیر پوسٹ مارٹم ہی سرد خانے میں منتقل ہو جائیں گے۔ اور عوام پھر ایک بار زندہ اور مردہ ضمیری کے درمیان ڈرا ہونے والے ٹیسٹ میچ پرکچھ عرصہ چند جذباتی تبصرے سنیں گے کیونکہ یہی ہماری روایت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).