حکومت اور محکمہ اینٹی کرپشن میں اکھاڑ پچھاڑ


صوبائی سطح پر احتساب کے لئے قائم اینٹی کرپشن کا ادارہ شروع سے ہی اپنی سُست روی، پیشہ وَر افرادی قوت کی سدا بہار قلت، روایتی کلیریکل مائنڈ سیٹ رکھنے والے مستقل افسران اور ڈیپوٹیشن پر آنے والے opportunist ”بابوؤں“ کی ”ڈنگ ٹپاؤ اور مال بناؤ“ پالیسی کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ ہر دور کے صاحبانِ اقتدار عوام کے لئے ”آنٹی کرپشن“ سمجھے جانے والے انسداد رشوت ستانی کے اس ناتواں ادارے میں انتقام کی روح پھونک کر اسے ”انسداد سیاسی مخالفین“ کے طور پراستعمال کرتے رہے ہیں۔

خادم اعلیٰ شہباز شریف کے دس سالہ دور سے لے کر جناب عمران خان کے وسیم اکرم پلس (عثمان بزدار) تک اینٹی کرپشن عام سائل کی داد رسی کے لئے کبھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ میاں شہباز شریف کے دور میں بھی اینٹی کرپشن کبھی کبھار حکومتی آلہ ء کار کے طور پر متحرک ہوا ہو تو الگ بات ورنہ سرکاری محکموں کے ستائے عوام کو ریلیف دلوانے کے لئے اینٹی کرپشن کے کریڈٹ پر کوئی بڑا کیس نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے برگیڈیئر (ر) مظفر علی رانجھا کے دور میں اینٹی کرپشن کے مردہ گھوڑے میں ضرور جان آئی، اینٹی کرپشن پر وسائل کی پتیاں نچھاور کی گئیں بہرحال عوام کی تشفی کے لئے جس قدر اقدامات کیے جانے چاہییں تھے ان میں اُسی قدر کمی رہ گئی۔

نگران دور کی عسکری حکومت نے برگیڈیئر (ر) مظفر علی رانجھا کا کنٹریکٹ ختم کرکے مطہر نیاز رانا کو ڈی جی اینٹی کرپشن تعینات کیا جوکہ اس ڈوبتی ہوئی کشتی میں مزید پتھر ڈال کر چلتے بنے ان کے بعد آنے والے زبان کے نرم لیکن عملاً انتہائی سخت گیر افسر حسین اصغر کو اینٹی کرپشن کی باگ ڈور تھمائی گئی۔ احتساب کی گاڑی کو ڈائریکٹ چوتھے گیئر میں سٹارٹ کرنے والے حسین اصغر نے چند ہی ہفتوں میں پنجاب کے محکموں کے کرپٹ افسران کے ذہنوں میں اینٹی کرپشن کا خوف راسخ کردیا۔ بظاہر تواینٹی کرپشن کا گھوڑا حسین اصغر کے دور میں سر پٹ دوڑا اور ٹاپوں کی ڈراؤنی آواز میڈیا کے ذریعے پورے پنجاب کے سرکاری ملازمین و افسر شاہی نے سُنی۔ لیکن جلد بازی میں بنائے گئے بڑے بڑے کیسز عدالتوں میں پانی کا بلبلا ثابت ہوئے۔ بقول منیر نیازی

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

حسین اصغر کے دور میں ”محکمہ اینٹی کرپشن“ پنجاب کے سرکاری ملازمین و افسران کے لئے ڈراؤنا خواب بنا ہوا تھالیکن تبدیلی سرکار کی ترجیحات کے پیش نظر وہ بھی مرضی سے کام نہ کرسکے اور سیاسی کیسز میں الجھا کر متنازعہ بنا دیے گئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کنٹریکٹ پر ڈی جی اینٹی کرپشن تعینات کیے جانے کی وزیراعظم کی شدید خواہش کے باوجود ”متاثرینِ اینٹی کرپشن“ کے گٹھ جوڑ اور عدالتی بیریئرز کے باعث حکومت انہیں بطور ڈی جی دوبارہ تعینات نہ کرسکی۔

احتساب کے شوقین وزیراعظم عمران خان حسین اصغر کی صلاحیتوں کے باعث ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے سو انہیں ڈپٹی چیئرمین نیب تعینات کردیا گیا۔ ڈی جی اینٹی کرپشن حسین اصغر کی ریٹائرمنٹ کے فوراًبعد گریڈ بائیس کے افسرطارق نجیب نجمی کو ڈی جی اینٹی کرپشن کا اضافی چارج دیا گیا۔ بُزدار سرکار کو تین دن بعد ہی اپنے غلط فیصلے کا ادراک ہوا تو طارق نجیب نجمی سے چارج واپس لے کرایڈیشنل آئی جی اعجاز حسین شاہ کو اضافی چارج سونپ دیاگیا اور بعدازاں انہیں ہی ڈی جی اینٹی کرپشن کا مستقل چارج دے دیا گیا۔

پی ایچ ڈی اسکالر اعجاز حسین شاہ کا شمار پولیس سروس کے انتہائی پروفیشنل افسران میں ہوتا ہے، انہیں ساہیوال جیسے حساس ترین سانحہ پر بنائی گئی جے آئی ٹی کا سربراہ بھی بنایا گیا، حکومت پنجاب نے اعجاز حسین شاہ کی کارکردگی اور ”دہشت گردی کے نفسیاتی اور سماجی محرکات“ پر گراں قدر تحقیقی کام کے باعث انہیں سول ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کررکھا ہے۔ اعجاز حسین شاہ کوتین روز قبل اچانک ڈی جی اینٹی کرپشن کی آسامی سے بغیر کسی وجہ کے ہٹا کر اوایس ڈی کرنا تبدیلی سرکار کے اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کے دعووں کو مشکوک بنا گیا۔

انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق تبدیلی سرکار میں شامل بعض طاقتور سیاستدان اعجاز حسین شاہ کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے اپنی مرضی سے چلانا چاہتے تھے۔ صاحبِ رائے افسر ہونے کی حیثیت سے اعجاز حسین شاہ کسی بھی پریشر گروپ یا سیاستدان کا آلہ ء کار بننے پر تیار نہیں تھے۔ بطور ڈی جی اینٹی کرپشن ان پر ریجنل ڈائریکٹرز کے تقرروتبادلوں کے حوالے سے بھی شدید نوعیت کا سیاسی دباؤ تھا۔ تبدیلی سرکار نے سیاسی خطوط پر مطلوبہ رفتار سے کام نہ کرنے کی پاداش میں گریڈ بائیس کے افسر اعجاز حسین شاہ کو اچانک او ایس ڈی بنا کر ان سے انتہائی جونیئر گریڈ بیس کے افسر گوہر نفیس کو ڈی جی اینٹی کرپشن تعینات کر دیا ہے جوکہ سابق ایڈیشنل ڈی جی عبدالرب سے بھی جونیئر ہیں۔

تبدیلی سرکار نے جونیئر ڈی جی کے ماتحت سینئر ایڈیشنل ڈی جی کے تعینات رہنے سے پیدا ہونے والی ممکنہ کھینچا تانی کا قصہ تمام کرنے کے لئے پولیس سروس میں مناسب شہرت رکھنے والے ایڈیشنل ڈی جی عبدالرب کو بھی بغیر کسی وجہ کے او ایس ڈی کردیا ہے۔ اعجاز حسین شاہ کے دور میں اینٹی کرپشن کی ٹیم نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو پاکپتن اراضی کیس میں شامل تفتیش کرکے کوٹ لکھپت جیل میں ان کے بیانات قلمبند کیے۔ سابق ڈی جی اینٹی کرپشن اعجاز حسین شاہ کے دور میں لیگی ایم این اے میاں جاوید لطیف سمیت درجنوں با اثر ن لیگی سیاستدانوں کے قبضہ سے سرکاری رقبے واگزار کروائے گئے۔

گوکہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ صوبہ بھر میں اپوزیشن کے موجودہ و سابق اراکین اسمبلی کی فائلیں کھولے بیٹھی تھی لیکن تبدیلی سرکار اعجازحسین شاہ سے بطور ڈی جی اینٹی کرپشن اپوزیشن کے خلاف جس طرز پر کام لینا چاہتی تھی وہ قانونی تقاضوں کے پیش نظر اُس نوعیت کی کارروائیاں نہیں کررہے تھے۔ criminology میں پی ایچ ڈی کرنے والے اعجاز حسین شاہ بالآخر پاور کوریڈور کے اندھے عتاب کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سرکار کا حافظہ یقینا کافی کمزور ہے لیکن بیوروکریسی فواد حسن فواد، احد خان چیمہ جیسی سیاسی نوکر شاہی کے حشر سے سبق سیکھ چکی ہے لہذا اب وہ تبدیلی سرکار کے ناتجربہ کار وزراء یا معاونین کے ہاتھوں کھلونا بن کر آئندہ آنے والی حکومت کے ہاتھوں رگڑا کھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).