سشما سوراج: ایک دشمن ایک محسنہ


بہت مشکل حالات ہیں۔ ملک سے محبت کی تلوار تھامے اور غدار کا سُر بجاتے لوگوں میں کچھ بھی کہنا بہت دشوار ہے۔ ہر انسان کے لئے مگر میرے لیے تو اس سے بھی زیادہ کہ میں ایک کمزور انسان ہوں۔ اتنا کہ شاید دنیا کے سچ اور جھوٹ، غلط یا صحیح کا فیصلہ نا کر سکوں۔

آپ بھارت میں رہ کر کشمیر کے لئے آواز بلند کریں تو آپ غدار ہیں۔ اور پاکستان میں رہ کر امن کی آشا کی بات کریں تو بھی آپ غدار ہیں۔

یقین جانیے سرحدیں بڑی ظالم ہیں۔ یہ محسن بدل دیتی ہیں۔ یہ رشتے بدل دیتی ہیں۔ یہ افسوس کا طریقہ بدل دیتی ہیں۔ یہ سوچ کا زاویہ ترتیب دیتی ہیں۔ یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ چند قدم دور رہتا انسان تمہارا دوست ہے کہ دشمن۔ یہ بتاتی ہیں کہ تمہارے پہلو میں کھیلنے والا بچہ تمہار اقاتل ہے کہ تمہارا دوست۔ یہی لکیریں یہی سرحدیں فیصلہ کرتی ہیں کہ جو لڑکے تمہاری آنگن میں کل تک تمہارے بچے بن کر کھیلتے رہے وہ لکیر تراشنے کے بعد تمہیں ماں رہنے دیں گے۔ کہ تم ان کی نظر میں ایک فاحشہ ہو گی تمہاری آبروریزی کریں گے کہ تمہیں حفاظت سے رکھیں گے۔ یہ فیصلہ آپ میں یا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ بس یہ فیصلہ لکیریں کرتی ہیں سرحد کی لکیریں۔

بھارت سے اب بھی کافی چیزوں میں اختلاف ہے۔ کشمیر اٹوٹ انگ ہے یا شہ رگ اس فیصلے کے دوران سرحد کے آر پار ہم سینوں میں آگ اور محبت کا عجیب امتزاج لئے جی رہے ہیں۔

شریمتی سشما سووراج کی وفات کی خبر ملی سمجھ نہیں آیا کہ کیا لکھا جائے۔ ایک ہندو کافرہ اوپر سے دشمن ملک کی نا صرف باسی بلکہ سابقہ وزیر خارجہ۔ سوچا کہ ایسی جہنمی عورت کے بارے کیوں لکھا جائے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہم اس قاتل و کافر کے احسان مند ہیں۔ تقریبا پونے تین سال پہلے میرے ماموں کا جگر پچاسی فیصد خراب ہو چکا تھا۔ اور ہم علاج کی غرض سے پورے ملک میں پھر رہے تھے۔ اور لیور ٹرانسپلانٹ کا ادارہ ڈھونڈھ رہے تھے۔

مگر کہیں سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا تھا۔ جب کہ ہمارے پاس ڈونر اور سرمایہ بھی موجود تھا۔ لاہور میں موجود ایک سرکاری ہسپتال میں کوشش کی گئی۔ مگر وہاں بھی ہزاروں روپے روزانہ کی بنیاد پر ہم سے چارج کیا جا تا رہا۔ مریض تڑپتا رہا۔ اور ڈاکٹر آج کل، آج کل کا مسلسل چورن دے رہے تھے۔ ماموں کی طبیعت مسلسل بگڑ رہی تھی، مگر ہمیں کہا جا رہا تھا کہ اجازت نہیں مل رہی۔ جو بعد میں کسی اندرونی ریسورس سے پتا چلی کہ اس ہسپتال میں لیور ٹرانسپلانٹ کے دوران ڈونر کی ہی موت واقع ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹال مٹول کیا جا رہا ہے۔

اس دوران ہم مسلسل کوشش کر رہے تھے کہ ہمیں بھارت کا ویزہ مل جائے اس کے لئے ہر اقد ام لیا جا چکا تھا۔ سیکٹری خارجہ سرتاج عزیز سے رابطہ کیا گیا۔ مگر بے سود۔ اس وقت ہم بغیر وزیر خارجہ کہ اس ملک کو گھسیٹ رہے تھے۔

میں ٹویٹر پر کافی ایکٹیو تھا۔ اور اکثر پاک بھارت تعلقات کو لے کر ٹویٹ کرتا رہتا تھا۔ اور انڈیا کو کسی نا کسی طریقے سے کوستا رہتا تھا۔ اور کچھ دن پہلے لیٹرین کو لے کر انڈیا کا ایک مزاحیہ میمز بھی بنایا تھا۔ مجھے کچھ لوگوں نے کہا کی بھارتی وزیر خارجہ کافی ایکٹیو ہیں۔ ان کو ٹویٹر پر پیغام بھیجو۔ ایک طرف غیرت تھی، اور دوسری طرف دشمن بھارت۔ ایک طرف لمحہ با لمحہ ماموں کو موت کی طرف جاتے دیکھ رہا تھا اور د وسری طرف دشمن سے امداد کی امید کرتے دل گھبرارہا تھا۔ مگر ان سب میں ایک قیمتی جان غیرت سے بڑھ کے تھی۔

میں نے سشما سوراج کو یکے بعد دیگرے کافی ٹویٹ کیے۔ جس میں ریکوسٹ کی گئی کہ ہمارا ویزہ اپروو کر دیا جائے۔ سشما صاحبہ نے اس وقت ہی میرے ٹویٹ کا ریپلائے کیا اور ہمارا کئی ماہ سے پینڈنگ ویزہ اپروو ہو گیا۔

اس کے بعد وہاں کے لوگوں نے پرانے اور نئے ٹویٹس کا موازنہ شروع کر دیا۔ اور ایسا ہوا کہ جب جب میں ٹویٹر کی ایپ پر جاتا تو میرا فون ہینگ ہو جاتا۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں کے کافی ایکسٹریمسٹ حلقوں نے اس بات کو سیریس لیا۔ اور لیٹرین والے ٹویٹ کو لے کرمیری کافی عزت افزائی کی۔ اور ان میں سے سینکڑوں ایسے بھی تھے جو نیک تمناؤں کے ساتھ آئے تھے۔ رہنے کی جگہ اور بہت سے ضروریات زندگی جو ہمیں بھارت میں چاہیے تھیں اس کے لئے وہ مدد پر آمادہ تھے۔ ایک طرف کسی نے ہمیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا، کسی نے کہا کہ میرے انکل حافظ سعید ہیں۔ اور کوئی اس قدر محبت بھرے پیغام لے کے آیا کہ سمجھ نا آتا تھا کہ دشمن ملک کا ہے کہ اپنے گھر کا فرد ہے۔

ان سب کے دوران ایک رویہ جو میں نوٹ کیا وہ یہ کہ برصغیر کی مٹی میں رہتے ہوئے دونوں طرف کے رویے ایک جیسے ہیں۔ ایک طرف مجاہدین رویے والے ہیں تو دوسری طرف اتنے ہی آتنک وادی بھی۔ ایک طرف عبدالستار ایدھی ہے تو وہ بھی مدر ٹریسا جیسا رویہ رکھتے ہیں۔

جو لکیریں بہتری کے لئے کھینچی گئیں۔ اس میں دونوں طرف مفاد پرستوں نے خلیج اتنی گہری کر دی کہ آپ اس کو پار نہیں کر سکتے اور اس پے ایسی دیواریں بلند کر دیں کہ آپ آر پار دیکھ نہیں سکتے۔

بہتر سال ہونے کو ہیں برصغیر دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک مسلمانوں کا ایک ہندؤوں کا۔ ترنگے والے اپنے جھنڈے میں سبز رنگ رکھنا نہیں چاہتے۔ اور سبز ہلالی پرچم والے سفید رنگ سے نالاں نظر آتے ہیں۔ سینکڑوں سال اکٹھے رہنے کے بعد ایک نہ بن سکے۔ اور بہتر سال کے عرصے میں ایک دوسرے سے جدا بھی نا ہو سکے۔ اب بھی جو سب کچھ لٹا کر آئے تھے وہ یادوں کی بھنور سے نکلتے نہیں اور جو اس دیس کو چھوڑ چلے وہ اب بھی اس کے سحر میں مبتلا ہیں۔

اختتام پے بس یہی کہنا چاہوں گا کہ سینکڑوں مریضوں کا علاج سشما سووراج نے اپنی ذاتی دلچسپی لے کر کیا۔ اور کتنے ہی خاندانوں کو نئی زندگیاں دیں۔ پروردگار ان کے لئے ان کی اگلی منزلیں آسان کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).