یوٹوپیا۔ ایک آئیڈیل ریاست کا خواب یا سراب


ہر لحاظ سے مکمل اور آئیڈیل ترین معاشرے کا قیام انسان کے دیرینہ ترین خوابوں میں سے ایک ہے۔ افلاطون کی ڈھائی ہزار سال قبل لکھی جانے والی کتاب ”ریپبلک“ اس سلسلے کی اولین کڑیوں میں سے ایک تھی۔ امریکا کی صورت میں نئی دنیا کی دریافت، نو آبادیاتی نظام، جرمن نازی ازم کا عروج، اشتراکی اور سرمایا کارانہ نظام، اسلامی خلافت، پاکستان اور اسرائیل سمیت نظریاتی ریاستوں کا قیام اور موجودہ پاکستان میں ریاست مدینہ جیسے نظام کی تمنا دراصل انسان کی اسی ازلی خواہش کا پرتو ہے جس میں وہ معاشرت، تمدن، اور تہذیب کے اعتبار سے ایک ایسا گوشہ عافیت چاہتا ہے جہاں اسے مکمل سکون اور خوشی میسر ہو۔

سولہویں صدی عیسوی میں لکھا گیا انگریز ناول نگار تھامس مور کا ناول ”یوٹوپیا“ بھی انسان کی اسی دیرینہ خواہش کو طنزیہ انداز میں بیان کرنے کی کوشش تھی۔ کتاب نے امریکی نظام سمیت کتنی اقوام کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر کیا یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ پانچ صدیوں بعد بھی اس کتاب میں آئیڈیل اسٹیٹ کے دیے گئے نظریات کے اثرات انسانی انداز فکر پر موجود ہیں اور لفظ یوٹوپیا بذات خود ہمارے مجموعی حافظے کا حصہ بن چکا ہے۔

ناول مختصر بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ اس ناول کا جارج آرویل کے ناول اینیمل فارم کے ساتھ موازنہ کریں تو صورتحال خاصی دلچسپ ہو جاتی ہے۔ تھامس مور کا یوٹوپیا اگر ایک تصوراتی اور کامل ترین ریاست کے خد و خال کو مزاح کے رنگ میں پیش کرتا ہے تو جارج آرویل کا اینیمل فارم ایک ایسے ہی نظام کے نفاذ کی کوشش میں ہونے والے مزید بگاڑ کی نشاندہی کرتا ہے جو آئیڈیل ازم سے رئیلزم کی جانب گامزن ہے۔ یوٹوپیا کی تصوراتی ریاست ہو یا اینیمل فارم کا کسی ریاستی تصور کو حقیقت میں بدلنے کا سفر۔ یہ دونوں انسانی تہذیب اور ارتقا کے وہ دلچسپ پہلو ہیں جہاں انسان اپنے لئے ایک آئیڈیل نظام کی تلاش میں صدیوں سے سرگرداں ہے۔

ناول یوٹوپیا میں تھامس مور نے تصوراتی ریاست کے جو خدو خال بیان کیے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں

ویسے تو اہل یوٹوپیا جنگ سے نفرت کرتے ہیں لیکن روز مرہ زندگی میں وہ جنگ کی مکمل تیاری رکھتے ہیں اور وقت آنے پر نہ صرف اپنا دفاع بھرپور طریقے سے کرتے ہیں بلکہ دوستوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنے لئے خون خرابے کو پسند نہیں کرتے لہذا اپنے دشمنوں میں ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کو پیسے سے خریدا جا سکے جو اپنے ہی لوگوں کے خلاف کام کرنے پر رضا مند ہوں اور یوں جنگ کے بغیر ہی یوٹوپیا والے ان کی مدد سے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔

اگر یہ طریقہ کارگر نہ ہو تو وہ دشمن ملک کے بادشاہ کے خلاف اسی کے اقربا میں سے کسی کو بادشاہ کے مد مقابل کھڑا کر کرتے ہیں۔ یہ حربہ بھی کارگر نہ ہو تو یوٹوپیا والے دشمن کے ہمسایہ ممالک سے رابطے استوار کر کے ان کو دشمن کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ تاہم تمام حربوں میں یوٹوپیا والے اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ان کے اپنے لوگوں کا جانی نقصان کم سے کم ہو اور دوسری اقوام کے لوگوں کو وہ دولت سے اس کام پر رضا مند کر لیتے ہیں۔

یوٹوپیا والوں کے شہر خاندانی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں اور کسی بھی شہر کی آبادی ایک مخصوص تعداد سے زیادہ نہیں ہونے دی جاتی۔ اگر آبادی زیادہ ہو جائے تو لوگوں کو آس پاس کے ممالک میں بھجوا دیا جاتا ہے اور اگر آبادی کم ہونے لگے تو لوگوں کو باہر سے لا کر یوٹوپیا میں آباد کیا جاتا ہے۔ ان کے شہر پہاڑ یا کسی پرفضا مقام کے نزدیک ہوتے ہیں جس کے پاس ہی کوئی دریا موجود ہوتا ہے۔ ہر شہر چار یکساں حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جس کے عین مرکز میں ایک مارکیٹ ہوتی ہے۔ شہر کی ہر گلی میں دونوں اطراف میں پندرہ پندرہ گھر ہوتے ہیں اور گلی کے نکڑ پر آپس میں مل بٹھنے کے لئے ایک عدد بیٹھک یا چوپال ہوتی ہے جسے اہل محلہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ہسپتال شہروں سے دور، کھلے، ہوادار اور بغیر چار دیواری کے ہیں۔ یہاں بیمار لوگوں کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے تاہم وبائی امراض کے پھیلنے کے خطرات کے پیش نظر ان کو آبادی سے دور رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یوٹوپیا کے لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ہر فرد کسی نہ کسی ایک صنعتی شعبے میں مہارت رکھتا ہے۔ ان کا دن چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں آٹھ گھنٹے نیند اور آرام کے اور چھ گھنٹے کام کے لئے مختص ہیں۔ باقی اوقات وہ اپنی مرضی کے مطابق گزارتے ہیں۔ وقت کے ضیا ع کے قائل نہیں اور اس کو کسی اچھے مصرف میں لاتے ہیں۔ زیادہ لوگ مطالعے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں یوٹوپیا والے سادہ اور صاف ستھرے لباس کو پسند کرتے ہیں اور ریشم ان کو ناپسند ہے۔ ان کے مطابق ظاہری لباس کا شان و شوکت سے کوئی تعلق نہیں۔ کھانے کے لئے مٹی یا شیشے سے بنے ہوئے برتن پسند کرتے ہیں۔ قیمتی ہیرے اور جواہرات وغیرہ وہ بچوں کو بطور کھلونا دے دیتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک ان پتھروں کا کوئی خاص مصرف نہیں۔ سونا ان کے نزدیک ایک حقیر سی دھات ہے جسے وہ غلاموں کو ان کی ظاہری پہچان ظاہر کرنے کے لئے پہنا دیتے ہیں۔

قانون اور انصاف کے معاملے میں ان کے یہاں وکیل کا کوئی تصور نہیں۔ یوٹوپیا والے سمجھتے ہیں کہ و کیل قانون کی پیچیدگیوں کو مقدمہ جیتنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ متاثرہ شخص جج کے سامنے اپنا مقدمہ خود زیادہ بہتر طریقے سے لڑ سکتا ہے۔ ان کے قانون کی کتاب سادہ اور عام فہم ہے جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ ان کی فیصلہ سازی کی کونسل میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جو قرارداد ایک دن پیش ہو اس پر بحث اگلے دن تک موخر کر دیجائے تاکہ اراکین اس پر خوب سوچ بچار کے بعد اس کے حق یا مخالفت میں اپنے خیالات کا اظھار کریں۔

یوٹوپیا والوں کے یہاں شادی کی رسومات بھی نہ سمجھ آنے والی ہیں۔ شادی سے پہلے وہ لڑکی اور لڑکے کو مکمل برہنہ ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس کی توجیہ وہ یہ دیتے ہیں کہ سواری کے لئے ایک معمولی گھوڑا خریدنے کے لئے انسان ہر طریقے سے جانچ اور پرکھ کرتا ہے تو وہ عورت یا مرد جنہوں نے آنے والی والی تمام زندگی ایک ساتھ گزارنی ہے محض چہرہ یا ہاتھ دیکھ کر اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لئے دونو ں کو حق حاصل ہے کہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو جسمانی اور ظاہری لحاظ سے پرکھ لیں تاکہ بعد میں کوئی گلا نہ ہو۔ یوٹوپیا والوں کے یہاں نہ طلاق کی اجازت ہے اور نہ ہی ایک سے زیادہ شادیوں کی تاہم جوڑے باہم رضا مندی سے ایک دوسرے سے جدا ہو کر کسی اور سے شادی کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).