کشمیر، پاکستان اور بین الاقوامی تعلقات


پاکستان میں ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سرکار کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے خلاف پارلیمان سے لے کر سڑکوں تک احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاج کے حوالے سے دیے گے بیانات میں آپ کو ’عالمی ضمیر‘ ’عالمی رائے عامہ‘ ، ’برادر مسلم ممالک‘ ، ’مذہبی یکجہتی‘ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ کا استعمال کثرت سے ملے گا۔ میری اس تحریر کا مقصد نہ تو ان الفاظ کے استعمال کرنے والوں پر تنقید کرنا ہے اور نہ ہی مسئلہ کشمیر سے منسلک کسی فریق کے مخالف یا حمایت میں کوئی دلیل دینی ہے۔

فقط یہ حقیقت بیان کرنی ہے کہ ان الفاظ کا بین الریاستی تعلقات سے کوئی ناتا نہیں۔ بین الاقوامی امور کا کوئی بھی طالبعلم آپ کو یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ ریاستوں کا ضمیر نہیں صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ اور بڑھاوے کے لیے وہ دیگر ریاستوں سے تعلقات استوار کرتی ہیں اور جب ضرورت پڑے تو اعلان جنگ بھی کر دیتی ہیں۔ یہاں ایک اور غلط فہمی بھی دور کر لیجئیے کہ ریاستوں میں برابری بھی ان کی معاشی اور حربی طاقت کہ بیناد پر طے پاتی ہے۔

ویسے آپ کو یہ جملہ بھی اکثر سننے کو ملے گا کہ ”ہم فلاں ملک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کے خواہاں ہیں ’۔ اس بین الریاستی برابری کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اب آتے ہیں مذہبی بنیادوں پر ریاستوں کے درمیان مساوی تعلقات پر۔ بین الاقوامی تعلقات میں مذہب کا سرے سے کوئی عمل دخل نہیں۔ ریاستیں مذہب کا استعمال اسی وقت کرتی ہیں جب ریاستی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال ضروری ہو۔ مثال کے طور پر اگر ریاستی مفادات کا تحفظ درکار ہو تو مسلح جدوجہد کو‘ جہاد ’کا نام دے دیا جاتا ہے۔

اگر اس کا ریاستی مفادات سے ٹکراؤ ہو تو پھر ایسا عمل ’دہشت گردی‘ قرار پاتا ہے۔ مشرق وسطی میں قائم ہونے والی اسلامی ممالک کی انسداد دہشت گردی فورس میں لفظ ’اسلام‘ پر غور کیجیئے اور پھر ان اکتالیس ممالک کے ریاستی نظام کا تجزیہ کیجئیے۔ بعدازاں سعودی عرب کے جنوب میں واقع ایک ملک میں جاری شورش اور ایران ’عراق اور شام کی اس اسلامی اتحاد میں عدم شمولیت کا جائزہ لیں۔ حقیقت آپ پر خودبخود آشکار ہونا شروع ہوجائے گی۔

اب واپس اصل موضوع پر آتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر پاکستانی حکومت، عوام اور ذرائع ابلاغ بارہا عالمی برادری کا ضمیر جنجھوڑنے اور سوشل میڈیا پر کشمیر میں بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حلقے شاید یہ یقین بھی کیے بیٹھے ہیں کہ ان کی کوششیں کامیاب ہوں گی۔ میری رائے اس معاملہ میں مختلف ہے۔ میرے ایک پروفیسر جان ہابسن ہمیں بین الاقوامی تعلقات سے متعلق موجود مختلف نظریات پڑھاتے تھے۔

یہاں میں ان کی ایک کتاب ”دی اسٹیٹ اینڈ انٹرنیشنل ریلشنز“ کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ پروفیسر ہابسن کے مطابق کسی ریاست کے عالمی سطح پر اثرورسوخ کا تعلق براہ راست اس کی داخلی طاقت سے ہوتا ہے۔ یعنی ریاست اندورنی طور معاشی اور معاشرتی سطح پر نان اسٹیٹ ایکٹرز (غیر ریاستی عناصر) کے اثرورسوخ سے جتنی آزاد ہے تو وہ بین الاقوامی سطح پر اتنی ہی طاقتور ہو گی۔ غیر ریاستی عناصر کی تعریف پر مختلف آراء قائم کی جا سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک ملک جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں یا دیگر ممالک کا مقروض ہے اسے مجبوراً ان عناصر کی طے کردہ شرائط کے مطابق اپنی معاشیات اور معاشرت کو ڈھالنا پڑے گا۔ اس کے برعکس اندرونی طور پر طاقتور ملک ان اور ان جیسے دیگر عناصر کے اثر سے آزاد ہو گا۔ اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر بھارتی حکومت کے کشمیر کے حوالے سے لیے جانے والے حالیہ اقدامات اور اس پر ہونے والا بین الاقوامی ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کا اندرونی طور پر مضبوط ریاستیں عالمی سطح پر اثرورسوخ رکھتی ہیں۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کیونکہ اندرونی طور پر کمزور ہے اس لیے اس کے کشمیر سے متعلق بیانیہ کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ رہی بات امت مسلمہ اور مذہبی بھائی چارے کی تو یہ ایک افسانہ ہے مسلم ریاستیں اپنے ریاستی فیصلے اپنے مفادات کی بینیاد پر کریں گی۔ مذہب کا سہارا صرف اسی صورت میں لیا جائے گا جب یہ مخصوص ریاستی مفادات سے ہم آھنگ ہو گا۔ جہاں تک بھارتی حکومت کا تعلق ہے تو وہ کشمیر میں کیے گئے اپنے اقدامات پر نظر ثانی اسی صورت میں کرے گی اگر وہاں کی اعلٰی عدلیہ اسے مجبور کرے یا کشمیر میں صورتحال اس کے قابو سے نکل جائے یا بھارتی عوام اپنی حکومت پر دباؤ ڈالے۔

جہاں تک بین الاقوامی ردعمل کا تعلق ہے تو موجودہ حالات میں بھارت کو اس محاذ پر کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان اپنے عوام کے اطمینان کے لئے چند بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ضابطہ کی کارروائی کرتا رہے گا۔ پر اس سے ہونا کچھ نہیں۔ کشمیری عوام سے یک جہتی ’مذہبی اور جذباتی لگاؤ اپنی جگہ لیکن بدقسمتی سے بین الاقوامی امور کا انسانی جذبات اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ریاستوں کے مفادات مشترک ہیں تو وہ آپس میں تعاون کریں گی ورنہ وہ خاموشی‘ علیحدگی ’غیر جانبداری یا جنگ میں سے اپنے مفادات کے مطابق موزوں حکمت عملی کا چناؤ کریں گی۔

بات بڑی سادی ہے پاکستانی ریاست کو چاہیے کہ اپنی اندرونی اور بیرونی ریاست طاقت کا درست ادراک کرے۔ اس پس منظر میں کشمیر کے معاملہ کو اندرون ملک اجاگر کرتی ریے لیکن عوامی جذبات کو اس مقام پر نہ لے جائے جہاں خود ریاست کے لئے دشواریاں پیدا ہونی شروع ہو جائیں۔ اقوام عالم اپنے مخصوص مفادات کے لیے تو پاکستان کا ساتھ دے سکتی ہیں لیکن یہ گمان کرنا اور عوام کو قائل کرنا کے پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک اس معاملہ پر پاکستان کا ساتھ دیں گے محض ایک خودفریبی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).