اطلاع گزیدہ


\"sajjad-jahania\"کبھی کبھی ایسا دل کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی جانب منہ کر جائیں۔ غالب کے سپنوں کی وادی کی طرف

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

تاہم اس سے اگلے شعر والی خواہش کبھی نہیں رہی۔ ہم نفس اور ہم سایہ کوئی نہ ہو مگر گھر بہ ہر حال در و دیوار والا ہی ہونا چاہئے۔ باقی لوگوں کا مجھے پتہ نہیں مگر رابطوں کے اس دور سے کبھی میرا دل اوب جاتا ہے۔ پوری دنیا جیسے اوپر چڑھی ہوئی ہے۔ ہزاروں میل دور گلیوں، بازاروں میں گھومتے شخص کو اس کے پورے پسِ منظر کے ساتھ دیکھتے ہوئے آپ مخاطب ہوتے ہیں۔ ہتھیلی پر آجانے والے آلے پر آپ ایک لفظ ٹائپ کرتے ہیں اور وہ اتنی انفرمیشن آپ پر انڈیل دیتا ہے کہ باقی زندگی آپ صرف فہرست پڑھتے ہوئے گزار سکتے ہیں۔ میں اس دور میں سانس لیتا ہوں جس کا فرد ’’اطلاع گزیدہ‘‘ ہے یعنی اطلاعات کا ڈسا ہوا۔ کبھی اطلاعات تک رسائی کے وسائل صرف بادشاہوں کا مقدر تھے، آج کچا پکا اور جھوٹا سچا علم ہر کہہ ومہ کی دہلیز پر بیٹھا ہے۔ اب یہ صاحبِ خانہ کی مرضی کہ وہ اسے اندر آنے کا اِذن دے یا نہ۔

جب لوگ کتابوں سے بڑھتی ہوئی عدم دل چسپی کا رونا روتے ہیں تو مجھے بہت سطحی لگتے ہیں۔ بس چلے تو مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون والی جلد مار کے ان کا سر توڑ دوں۔ اس تاریخ کا مقدمہ اور باقی چھ آٹھ جلدیں اٹھانے کے لئے گدھا کروانا پڑتا تھا، اب وہ میرے فون کی میموری کی ایک نُکڑ میں پڑی ہیں۔ جب، جتنا اور جہاں سے دل کیا، اس کو پڑھ لیا۔ کتاب کا مقصد حصولِ علم ہی ہے نا! آج کی نسل ہم سے زیادہ صاحبِ علم ہے۔ وہ جیب میں جہان لئے پھرتی ہے۔ ان کا علم زیادہ پریکٹیکل ہے اور وہ سپیشلائزڈ ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر سب کا ذائقہ گڈ مڈ نہیں کرتے بلکہ ایک ہی گھاٹ کا پیتے ہیں مگر اس پانی کے تمام تر اجزاء و اثرات سے واقف و آگاہ۔ تاہم مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آج کے بچے کل 505 نمبروں میں 504 نمبر کیسے لے لیتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں زبانِ فرنگ کے استاد احمد شاہ بخاری نے فیض احمد نامی طالب علم کو سو میں سے ایک سو دس نمبر دئیے۔ کسی نے پوچھا کہ ’’سو میں سے ایک سو دس کیسے اور کیوںکر۔۔۔۔۔ ؟‘‘تو جواب ملا کہ ’’میں اس سے زیادہ دے نہیں سکتا تھا‘‘۔

تب وہ سیالکوٹ کا فیض احمد آگے جا کر فیض احمد فیض بنا۔ ایک تھا سو آج بھی دنیا استاد شاگرد دونوں کو جانتی ہے۔ اب احمد شاہ بخاری پطرس بہت ہوگئے ہیں اور ان کے شاگرد آٹھویں، نویں، دسویں اور انٹر میں فیض جیسے ہی نمبر لینے لگے ہیں۔ جنس کی بہتات ہوجائے تو اس کی قدر نہیں رہتی۔ سو معاملہ آج ہے۔ نہ کوئی کسی پطرس بخاری کو جانتا ہے اور نہ کسی فیض احمد فیض کو۔۔۔۔ حالاںکہ انفارمیشن کا دور ہے اور اطلاعات تک عام رسائی کا زمانہ۔ کھمبیوں کی طرح اُگے نجی ادارے ہر سال دورِ جدید کے سینکڑوں فیض ہائے کی قے کریں گے تو لوگ کس کس کو یاد رکھیں؟ خیر! بات کہاں سے شروع ہوئی اور ’’بٹھنڈا‘‘سے ہوتی کہاں چلی گئی۔

میں تو اس دورِ اطلاعات سے کبھی اکتا جاتا ہوں۔ دل کرتا ہے کہ کوئی دور دراز کا گوشہ ہو اور وہاں تنہائی کا کُنج۔ انٹر نیٹ ہو، فون اور نہ کوئی کورئیر سروس۔ ریل، بس کا اڈا بھی قریب نہ ہو۔ گیان دھیان کو پیپل کا درخت بھی نہ ہو، ہاں چاولوں کا بھات لانے کو کوئی’’سُجاتا‘‘ کبھی آجایا کرے تو دل و جان سے گوارا۔ بس سناٹے میں لپٹا اکلاپا ہو اور زبانِ خامشی میں بولتی تنہائی۔

یہ سطریں لکھتا ہوں تو عید کو گزرے پانچواں دن ہے۔ اک ہمدمِ دیرینہ سے آج ملاقات ہوئی۔ کچھ عرصہ سے صاحبِ فراش ہیں سو ملاقات قدرے کم وگرنہ عالم یہ تھا کہ ندیمِ شب و روزینہ۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں پھر وہ کچھ حال درونِ خانہ کا بانٹنے لگے۔ دکھی تھے کہ دونوں بڑے فرزند پڑھائی سے منہ موڑ رہے ہیں اور اکھڑ مزاج ہوئے جاتے ہیں۔ یہ روداد سناتے ہوئے برسبیلِ تذکرہ کہنے لگے ’’منجھلے نے عید کی نماز نہیں پڑھی۔ گھر کا ایک ایک فرد منت کر کے ہارگیا مگر وہ چارپائی سے اٹھ کے نہیں دیا۔ وجہ پوچھی تو کہا نئے کپڑے تو بنوا نہیں دئیے اب کس منہ سے عیدگاہ کو جاؤں‘‘۔

اس جملے پر ان کے گلے میں پھندہ سا لگا پھر بڑا سا گھونٹ لعابِ دہن و صبر و رضا کا نگل کر بولے ’’میں نے اس سے کہا برخوردار!تمہاری ناراضی ہم سے تب روا ہوتی جب ہم نے تمہارے دیگر بہن بھائیوں کو نئے کپڑے بنا دئیے ہوں اور تمہیں چھوڑ دیا ہوتا۔ وہ بھی تو جا رہے ہیں نماز پڑھنے۔ مگر صاحب اس نے کمر چارپائی کے سینے سے جدا نہیں کی۔ دوپہر تک اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑا رہا پھر گھر سے نکل گیا‘‘۔ وہ اور بھی باتیں کرتے رہے مگر مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

میں نے ہر سال کی طرح اب کے برس بھی قربانی کی مگر اک ذرا مشکل میں مبتلا ہو کے۔ بجٹ کے کچھ مسائل تھے تاہم الحمداللہ کچھ نہ کچھ سبب نکل آیا اور ایک بڑا خوب صورت سفید بکرا سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی میں ہم نے بھی اللہ کی راہ میں قربان کیا۔ پانچ روز تک قربانی کر دینے کے غرور میں اسیر میں کیسا اینڈا اینڈا پھرتا رہا۔ مجھے اپنی نیت کے سچا ہونے پر بھی افتخار کا بخار چڑھا رہا کہ نیکی کی نیت خالص ہو تو پردۂ غیب سے اسباب پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ مگر اب یہ افتخار اور نیت کا اعجاز، دونوں ہی عنقا تھے۔ دوست کی گفتگو جاری تھی مگر میری سماعت شل ہوچکی تھی، کچھ بھی سن نہیں پا رہا تھا۔ میں تو پل صراط پر پہنچ چکا تھا۔ پل صراط بہت بری طرح سے ڈول رہا تھا۔ جیسے کسی پہاڑی ندی پر رسوں اور لکڑی کی کھپچیوں کا بنا پل مسافر کے چلنے سے ڈولتا ہے۔ میں خود کو اس پل پر لڑکھڑاتا دیکھتا تھا اور میرا وہ سفید بکرا جس کا کچھ حصہ اب بھی فریزر میں پڑا ہے، مجھے خود پر سوار کرنا تو کجا، قریب آنے کا اِذن دینے کو بھی تیار نہیں تھا۔

میں دورِ اطلاعات کا ایک فرد ہوں۔ اکیاون کروڑ مربع کلومیٹر پر پھیلی اس زمین کے چپے چپے کی خبر میری جیب میں اور دسترس میں ہے مگر مجھے اپنے ہم دمِ دیرینہ کے حالات کی خبر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments