عجلت میں موقع گنوایا تو کشمیر میں کہانی کو ختم سمجھیں


 

ابھی تو انجام کی شروعات ہوئی ہے۔ ابھی ہمارے لئے کافی راستے کھلے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا لیکن یہ ہے کہ سارے پتے نہایت عمدگی سے استعمال کیے جائیں۔ ہماری قومی اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر پر حکومتی مذمتی قرارداد سے بھارت کے آرٹیکل 370 کا ذکر غائب ہونا اور اپوزیشن کے احتجاج کے بعد شامل کیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت نے یہ قراردا عجلت میں اور بغیر کسی ہوم ورک کے پیش کی۔ کچھ حساس معاملات ہمیشہ زیادہ سنجیدگی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کچھ غیر ضروری معاملات کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہونا اور مزید غیر ضروری تاخیر سے دوبارہ شروع ہونا، ایسی چیزوں سے آپ دشمن کو محض اپنی تقسیم اور اندرونی انتشار کا پیغام ہی دے سکتے ہیں۔ ان چیزوں سے آپ مثبت اور یکجہتی پہ مبنی پیغام نہیں دے سکتے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنا چاہیے تھا اور مشترکہ لائح عمل اختیار کرنا چاہیے تھا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم یہ پانچ نکات پہلے سے طے کر لیتے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان نقاط پہ بحث کی جاتی۔ دنیا کو پیغام دیا جاتا کہ فیصلہ محض ایک کمیٹی کا ہی نہیں بلکہ پوری پارلیمنٹ، افواج اور پوری قوم کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ جس طرح کور کمانڈرز نے مل بیٹھنے کے بعد ایک جاندار پیغام دیا، ایسا ہی ایک پیغام پارلیمنٹ کے فورم سے بھی جانا چاہیے تھا۔ اگر ہم کور کمانڈرز کانفرنس کے فیصلے کا انتظار کر لیتے تو بھی بہتر ہی ہوتا۔

بہتر ہوتا کہ جناب وزریر اعظم پالیسی بیان دیتے۔ ان کی تقریر سے لیکن تاثر یہ ملا کہ وہ بغیر کسی تیاری کے اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں۔ اُن کی جانب سے یہ کہا جانا کہ ”کیا اب میں ہندوستان پہ حملہ کر دوں“ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ جناب نے فارن آفس یا وزارتِ دفاع سے اُس وقت تک رجوع نہیں کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیرِ خارجہ کی غیر موجودگی میں بھی کوئی صاحب ہمیں یہ بتا رہے ہوتے کہ ہم نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ کیا ہے، دوست اور مغربی ممالک سے رابطہ کیا جا چکا ہے اور غیر ملکی سفیروں کو مدعو کر کے انہیں اپنے موقف سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

دنیا کو واضع پیغام دے دینا چاہیے کہ بھارت سے ہمارا جھگڑا صرف اور صرف کشمیر کی وجہ سے ہی ہے۔ حالیہ بھارتی اقدام کسی وجہ سے بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ہم کسی صورت بھی جنگ کے قائل نہیں ہیں لیکن موجودہ حالات کی ذمہ داری کسی صورت بھی پاکستان پہ عائد نہیں ہوتی۔ اب بھی اگر مہذب دنیا بھارت کی جانب سے ریاستی دہشتگردی پہ آنکھیں بند کیے رکھے گی تو پاکستان بھی اپنے لئے تمام راستے کھلے رکھے گا۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اٹھائے گئے اقدامات محض قراردادوں اور معاہدوں پہ مبنی نہیں ہونے چاہئیں۔ معاہدوں کی حقیقت انڈیا نے موجودہ صورتِ حال میں اچھی طرح واضع کر دی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور سندھ طاس معاہدے کے حالات دیکھتے ہوئے ہمیں ایسے کسی جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔ کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا جھگڑا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک انسانی المئیے کی صورت میں ابھرا ہے۔ جیسا کہ منیر نیازی نے کہاُتھا ”لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے“ بالکل ویسے ہی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کو ایمنسٹی انٹر نیشنل اور دوسرے فورمز پر بھی اٹھانا چاہیے۔

بھارت سے تعلقات کم کرنا موجودہ صورتِ حال میں بہتر فیصلہ ہے لیکن یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ ہمیں بھارتی اقدامات کے لحاظ سے بہترین تیاری کر کے اقوام متحدہ میں جانا چاہیے۔ کوشش یہ بھی کرنی چاہیے کہ کیس کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ ملکی ماہرین کی خدمات سے ہی استفادہ کیا جائے۔ سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ اٹھانے سے پہلے سلامتی کونسل کے ممبران سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر قانونی مسائل نہ ہوں تو عالمی عدالتِ انصاف سے بھی رجوع کر لینا چاہیے۔ اس سے پہلے ہماری ٹیم کو بھارتی آئین اور عالمی قوانین و تاریخ کا بھی مطالعہ کر لینا چاہیے۔ اگر ہم نے عجلت میں یہ موقع بھی گنوا دیا تو پھر کشمیر کہانی کو ختم ہی سمجھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).