مقبوضہ کشمیر: دو ملکوں کا تنازع یا ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا معاملہ


بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کو خارجہ محاذ پر سنگین اور مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ پاکستان کے ’دبنگ بیانات اور خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے‘ کے دعوؤں کے باوجود دنیا میں افسوسناک سناٹا طاری ہے۔

 کہیں سے اگر کوئی معمولی سی تائید ملتی ہے تو پاکستانی ترجمان اسے بڑھا چڑھا کر اپنی شاندار سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے ساتھ شاہ محمود قریشی کی ملاقات ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے ’متفقہ نکات‘ کا مختصر بیان میں ذکر کر دیا ہے کہ دونوں ملک اپنے تاریخی مسائل کو مل جل کر حل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے ملکوں کی بہبود اور علاقے میں امن کے لئے کام کریں۔ البتہ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس ملاقات کے بعد ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں اپنی شیریں کلامی سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چین پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں ’انصاف‘ دلوانے کے لئے ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کے بعد جو صورت حال سامنے آئی ہے اس میں کشمیر میں پاکستان کے لئے انصاف یا کامیابی کا معاملہ غیر اہم ہو چکا ہے۔ اصل معاملہ کشمیری عوام کی جان کی سلامتی، ان کی بہبود اور حق خود اختیاری کے بارے میں ہے۔ آزادی کی بات کرنے سے پہلے البتہ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ وادی میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی اور ڈیڑھ کروڑ شہریوں کو گھروں میں مقید کرنے کی حکمت عملی کی وجہ سے عام شہری کس ناقابل برداشت جبر کا سامنا کررہے ہیں۔

 عید الاضحیٰ سے عین پہلے مقبوضہ علاقے میں عوام کے ساتھ کئے جانے والے اس سلوک کا ذکر سب سے پہلے ہونا چاہئے۔ پاکستان کی سفارتی کوششوں یا سیاسی تقریروں میں سرحدوں کی حفاظت اور مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا ذکر سر فہرست ہے۔ حالانکہ پاکستانی لیڈروں کو ، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا دنیا سے رابطہ ختم ہونے اور سنگینوں کی نوک پر ان کے بنیادی انسانی حقوق سے انکار کا معاملہ پر زور طریقے سے سامنے لانے کی ضرورت تھی۔

بیجنگ میں شاہ محمود قریشی کی چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی ملاقات کا بنیادی مقصد بھی سلامتی کونسل میں یہ معاملہ اٹھانے کے لئے پاکستانی کوششوں کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ اس ملاقات کے ایجنڈے میں بھی کشمیر ی شہریوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا ذکر ضمنی طور سے کیا گیا ہے۔ اس کی ضرورت بھی یوں محسوس کی جاتی ہے تاکہ اپنے اس مؤقف کے لئے دلیل تلاش کرسکے کہ اگر بھارت کا ہاتھ نہ تھاما گیا تو مقبوضہ کشمیر میں بے چینی اور احتجاج ، تشدد اور دہشت گردی کا رخ اختیار کر لے گا۔ اس لئے اقوام عالم مل کر بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔ اس مؤقف کو بھارت یوں پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کی دھمکی دے رہا ہے۔

موجودہ پاکستانی پالیسی اس کی دہائیوں پرانی کشمیر پالیسی کا چربہ ہے جس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ حالانکہ بھارت کے آئینی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورت حال 48۔1947 تک واپس پہنچ گئی ہے۔ گویا پاکستان کو قدرت کی طرف سے یہ موقع میسر آیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں یا دو طرفہ معاہدوں کا حوالہ دینے اور بھارت کے انکار کا راگ الاپنے کی بجائے ، ایک جغرافیائی اکائی میں آباد ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی حالت زار اور انسانی المیہ کے ذکر سے سفارتی کوششوں کا آغاز کرتا اور بات کو کشمیر عوام کے حق خود اختیاری تک لے جانے کی کوشش کی جاتی۔

مقبوضہ کشمیر میں جب بھی کرفیو کے حالات ختم ہوئے اور عوام کو سڑکوں پر آنے کا موقع ملا تو وہ بھی اپنے اسی حق کی بات کریں گے۔ پاکستان اگر اس آواز میں اپنی آواز ملا سکتا ہے تو شاید عالمی دارالحکومتوں میں اس کی شنوائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس مؤقف کو پاکستان کے جغرافیائی ، سیاسی یا معاشی مسائل کے ساتھ نتھی کرنے یا کشمیری عوام کے عقیدہ کے ساتھ جوڑنے کی بجائے صورت حال کے انسانی پہلو اور انسانوں کے ایک گروہ کے خلاف ایک بڑی طاقت کے جرائم کو بے نقاب کرنے والی پالیسی ہی اسلام آباد کی سفارتی پیش رفت کی بنیاد بن سکتی ہے۔

دنیا کے دیگر خطوں کی طرح متعدد مغربی ممالک میں بھی آج کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے مظاہرے کئے گئے۔ تاہم ان اجتماعات میں ’کشمیر بنے کا پاکستان، اسلام کا بول بالا ہوگا یا اللہ اکبر‘ جیسے نعرے یا پاکستانی پرچم بلند کرنے کا طریقہ کشمیر کاز کے لئے سود مند نہیں ہوسکتا۔ اکثر مغربی سیاسی لیڈر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر ضرور پریشان ہیں اور ذرا سی محنت کرنے پر اس حوالے سے بیان دینے یا کردار ادا کرنے پر بھی آمادہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس معاملہ کو اگر پاکستان کے سیاسی یا سفارتی مؤقف کے درست اور بھارتی طریقہ کے ناقص اور ناقابل قبول ہونے کے طور پر پیش کیا جائے گا تو کوئی بھی سیاست دان یا سیاسی جماعت اس میں فریق بننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ کے کسی ملک نے نئی دہلی کی طرف سے آئینی تر میم کے بعد کوئی واضح بیان دینا یا بھارتی ہتھکنڈے کو مسترد کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ پاکستانی نمائندے کشمیر کو بدستور دو ملکوں کا تنازعہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور دنیا سے چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں پاکستان کا ساتھ دے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بے حسی کی وجہ سے خاموش نہیں ہے بلکہ پاکستانی پالیسی ساز کشمیر کو وہاں کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے سوال کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ جب تک مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی استبداد کے بارے میں ٹھوس اور مدلل طریقے سے بات نہیں کی جائے گی دنیا یوں ہی خاموش رہے گی۔

بدقسمتی سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سامنے آنے والی دستاویزی رپورٹس یا جمع کی گئی شہادتیں اقوام متحدہ کے اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے فراہم کی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے کبھی کوئی منظم اور جامع کام نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی اقوام متحدہ کی مردہ قراردادوں پر استوار رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ کے اس نازک اور مشکل دوراہے پر ایک بار پھر پاکستان ماضی میں کی گئی غلطیوں کو ہی دہرا رہا ہے۔

اس دوران ایک بھارتی کمانڈر کے بیان پر آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل میجر آصف غفور کا یہ سنسنی خیز جواب سامنے آیا ہے کہ ’اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی کوئی کوشش کی تو اس کا 27 فروری سے بھی زیادہ سخت جواب دیاجائے گا‘۔ چنار کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں کا بیان پاکستان پر حملہ کی بجائے اس بنیاد پر تھا کہ’ اگر پاکستان نے کشمیر میں مداخلت کی تو اس سے نمٹا جائے گا‘۔ یہ دونوں مختلف باتیں ہیں ۔ پاکستانی وزیر خارجہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان اس معاملہ کا حل جنگ کے ذریعے نہیں چاہتا بلکہ پر امن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم سے لے کر فوج کے ترجمان تک جس لب و لہجہ میں بھارتی ارادوں کی بات کرتے ہیں، ان سے یہ رائے قوی ہوتی ہے کہ پاکستان کو اندیشہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو پس منظر میں ڈالنے کے لئے بھارت، پاکستان پر جنگ مسلط کرسکتا ہے۔ اسی ’متوقع‘ اندیشے سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور پاک فوج کے ترجمان 27 فروری سے زیادہ سخت جواب دینے کی بات کرتے ہیں۔ اس سال فروری میں پاک فضائیہ نے  لائن آف کنٹرول عبور کرنے والے ایک بھارتی طیارے کو مار گرایا تھا اور اس کا پائلٹ گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس قسم کے بیانات کی وجہ سے ہی پاکستانی میڈیا میں ممکنہ پاک بھارت جنگ اور اس کے نتائج کے بارے میں نت نئے تبصرے اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ حیرت ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو کسی بھی قسم کی دھمکی نہیں دی گئی لیکن پاکستان میں ممکنہ جنگ ہی تمام تر تجزیوں اور قیاس آرائیوں کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔ کم وسائل اور محدود فوجی قوت کی بنیاد پر یہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جنگ پاکستان کا آپشن نہیں ۔ اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دہرانے کا بھی ارادہ نہیں رکھتا۔ پاکستان یہ پیغام واضح طور سے دوست ملکوں اور نئی دہلی تک پہنچا کر بھارت کی طرف سے کسی بھی امکانی جنگ کے اندیشے کو ختم کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ لیکن اگر اس معاملہ کو اپنی دفاعی صلاحیت اور ایک تباہ کن جنگ کی تصویر کشی کے لئے استعمال کیا جائے گا تو اس سے پاکستان کو سفارتی لحاظ سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی۔

پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن جنگ کی غیر ضروری گفتگو سے ملک میں خوفناک جنگی جنون پیدا کیا جارہا ہے ۔ یہ حکمت عملی دنیا کے سامنے پاکستان کے ارادوں کی غلط تصویر پیش کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ دفاع کے لئے ’منہ توڑ جواب دینے‘ کے اعلانات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ا س کا مظاہرہ تو جنگ مسلط ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس امکان تک جانے والی لفاظی اور جذباتی مشقت سے پرہیز کی ضرورت ہے۔

جنگ جوئی کے مباحث ہی کی وجہ سے مفسد عناصر یہ دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت نے کشمیر پر کوئی سودے بازی کرلی ہے ۔ یا صدر ٹرمپ کا ثالثی والا وعدہ اس وقت کام آئے گا جب بھارت پاکستان پر حملہ کرکے آزاد کشمیر ہتھیانے کی کوشش کرے گا۔ ملک میں پیدا کی گئی افسوسناک سیاسی صورت حال میں ایسی چہ میگوئیاں قومی سلامتی اور مفاد کے لئے سنگین اندیشہ کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ لیکن سرکاری نمائندوں کا دھمکی آمیز انداز بیان ان اندیشوں میں اضافہ کررہا ہے۔

یہ کہنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پاکستان کو جنگ سے بچنے کی ضرورت ہے اور کشمیر کے معاملہ پر بات کرتے ہوئے کشمیری عوام کی صورت حال کو فوکس کیا جائے۔ تب ہی پاکستان کو عالمی سطح پر چند ہمدرد نصیب ہوسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali