سیاست میں وراثت بے نامی جائیداد نہیں ہوتی


دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔ نیلی چھتری والے نے ہمیں جہاں رنگ و بو میں بھیجتے ہوئے اہتمام کیا کہ آنکھ کھولتے ہی فیلڈ مارشل ایوب خان کے سنہری دور کی بہار دیکھنا نصیب ہو۔ کانوں میں سیاست کے لئے حرف دشنام کی صدا درا ہو۔ ہماری نسل روایتی داستانوں کا وہ شہزادہ تھی جسے پیدا ہونے کے بعد چودہ برس تک نیلے آسمان کی جھلک، بارش کی بوند اور پھول کی خوشبو سے دور رکھا جاتا تھا۔ جیسا کہ آپ نے بھی داستانوں میں پڑھا ہو گا، اس کشٹ کی آخری رات کچھ ایسا پیچ پڑتا تھا کہ سات پردوں میں رکھا شہزادہ اس خوبیءشہر کی ایک جھلک دیکھ لیتا تھا جو اسے دنیا و مافیا سے بیگانہ کر دیتی تھی۔ ہماری نسل پر بھی یہ آزمائش گزری۔ ہری پور ریحانہ کے پیر تسمہ پا اور میانوالی کے سنیاسی المعروف بابا صاحب کالاباغ کے کھینچے ہوئے حصار میں رخنہ آ گیا۔ شہر پناہ کی بلند دیواروں کے پار ہمیں اک صدائے گم گشتہ نے آ لیا اور ہم نے جان لیا کہ ہم رعایا نہیں، شہری ہیں۔ زور آور کی محکومی ہمارا مقدر نہیں، ہمیں ایک آزاد زمین کی امانت سونپی گئی تھی اور یہ امانت ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح کا ورثہ تھی۔ بابائے قوم کا ذکر آتا ہے تو درویش کے متزلزل ایقان میں چراغ جل اٹھتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ سیاست میں رہنمائی کا قوام کن اجزا سے اٹھتا ہے۔

1908 کا برس تھا۔ وائسرائے لارڈ منٹو نے اپنی ایگزیکٹو کونسل میں ایک ہندوستانی کو شامل کرنے کا اعلان کیا۔ یہ کار سرکار میں مقامی باشندوں کی شرکت کا ابتدائی قدم تھا۔ بمبئی کے دو وکیل باہم مشاورت کے لئے مل بیٹھے کہ اس اعزاز کے لئے کون سا ہندوستانی موزوں ترین شخص ہو گا۔ ان میں سے ایک کا نام گوپال کرشن گوکھلے تھا، عمر بیالیس برس۔ دوسرے کا نام محمد علی جناح تھا، عمر 34 برس۔ یہ دونوں اصحاب پیشہ ورانہ قابلیت، سیاسی بصیرت اور قائدانہ خوبیوں کے لئے ملک بھر میں شہرت رکھتے تھے۔ توجہ فرمائیے، ان دو نابغہ ہائے عصر نے اتفاق کیا کہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں ہندوستانیوں کے پہلے نمائندے کے طور پر بہترین ممکنہ انتخاب کلکتہ کا کائستھ وکیل ایس پی سنہا ہو گا۔ فیصلہ ہوتے ہی دونوں نے رخت سفر باندھا اور ایس پی سنہا سے ملنے کلکتہ پہنچ گئے۔ رائے پور میں پیدا ہونے والے 45 سالہ ایس پی سنہا کی بنگال میں قانونی پریکٹس کا یہ عالم تھا کہ اگر سرکاری منصب قبول کر لیتے تو انہیں سالانہ 10000 پاؤنڈ کی آمدنی کا نقصان ہوتا۔ چنانچہ انہیں ایگزیکٹو کاؤنسل کا رکن بننے میں چنداں دلچسپی نہیں تھی۔ سنیے، گوکھلے صاحب ایس پی سنہا سے کیا کہتے تھے، ’برطانوی سرکار کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ ہندوستانی اعلیٰ عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ تمہیں کم از کم کچھ عرصے کے لئے یہ ذمہ داری قبول کر لینی چاہیے تاکہ ایک نظیر قائم ہو سکے‘ سنہا صاحب حیلے بہانے کرتے تھے۔ دو ماہ اس تکرار میں گزر گئے۔ ایک روز محمد علی جناح بھڑک اٹھے اور کہا، ’تم سمجھتے ہو کہ ہم احمق ہیں جو اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ کیا گوکھلے بے وقوف ہیں کہ لاکھوں کی آمدنی چھوڑ کر 75 روپے ماہوار پر سرونٹس آف انڈیا سوسائٹی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ میں جو یہاں کلکتہ میں آیا بیٹھا ہوں، کیا بمبئی میں میری پریکٹس کا نقصان نہیں ہو رہا۔ کیا ہم تم سے اپنے لئے بھیک مانگتے ہیں؟ مان لیا کہ تمہیں مالی نقصان ہو گا لیکن وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں تمہارے شامل ہونے سے عوام اور ملک کی بھلائی ہو گی۔ ‘ ایس پی سنہا مان گئے۔ یہ تھے ہمارے رہنما اور اسے سیاست کہتے ہیں۔

سیاست بند دروازوں کے پیچھے جوڑ توڑ کر کے ری پبلکن پارٹی کھڑی کرنے کا نام نہیں، بندوق کے زور پر کنونشن لیگ بنانا سیاست نہیں، سیاست مشرقی پاکستان کے ضمنی انتخابات میں ریوڑیاں بانٹنا نہیں۔ سیاست پی این اے کی آڑ میں شب خون مارنے کی چال نہیں، سیاست آئی جے آئی میں پیسے بانٹنے کا کاروبار نہیں، سیاست احتساب کی دھمکی دے کر پیٹریاٹ دریافت کرنے کی مہارت نہیں، سیاست مقوی نسخوں سے تبدیلی کی مالش کا ہنر نہیں، سیاست لین دین کے بل پر بلوچستان میں باپ دریافت کرنے کا شعبدہ نہیں۔ سیاست ذہانت کا وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے جہاں قوم کے بہترین رجال قوم سے وفاداری کی ارفع ترین ذمہ داری نبھاتے ہوئے کمپنی باغ راولپنڈی کے اندر بھی گولی کھاتے ہیں اور باہر بھی گولی کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک خواب کی آبیاری میں پھانسی گھاٹ کی آزمائش سے گزرتے ہیں۔ اندھیرے بندی خانوں میں مزاحمت کا چراغ جلاتے ہیں۔ محمد علی جناح کی بہن پیرانہ سالی میں اس وراثت کی پیروی کرتی ہے۔ نوجوان بے نظیر بھٹو اپنے باپ سے ملنے جیل جاتی تھی، پھر اپنے کمسن بچوں کی انگلی پکڑ کر جیل میں ملاقات کو جاتی تھی۔ وہ بچے آج بھی پنڈی جیل کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ عبدالصمد اچکزئی کے ٹکڑے اٹھانے والا محمود اچکزئی سیاست سے فرار نہیں ہوا۔ بلور گھرانہ ایک کے بعد ایک لاش اٹھاتا ہے۔ افتخار حسین اکلوتے بیٹے کی قبر پر کھڑا بائیس کروڑ بیٹے شمار کرتا ہے۔ غوث بخش بزنجو کا بیٹا جان لیوا بیماری میں اقامت کا درس دیتا ہے۔ سلمان تاثیر قتل ہونے کی دعوت نہیں دیتا، چل کے قتل گاہ تک جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک باپ کے سامنے اس کی بیٹی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سیاست آزمائش کی وراثت ہے، اس لئے اپنی سالانہ ترقی کا حساب جوڑنے والوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اہل سیاست کے اثاثے معلوم ذرائع سے کیسے بڑھ جاتے ہپں۔ وہ سیاست کو بے نامی جائیداد سمجھتے ہیں۔ سیاست کا اثاثہ اس نادیدہ رشتے کی دین ہے جو رہنما اور سیاسی کارکن میں ایک خواب کے ناتے قائم ہوتا ہے۔ جسے ان ذرائع کا کھوج لگانا ہو، جسے اس جائیداد کی ملکیت معلوم کرنا ہو، وہ قبرستان کی لوحوں پر لکھے ہمارے پرکھوں کے نام پڑھ لے، ہماری فرد جرم پر ایک نظر ڈال لے، سیاست خلق کی بھلائی اور زمیں کی رہائی کی روبکار ہے، سیاست کی وراثت بے نامی جائیداد نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).