کلسٹر بم: ’ہماری جان، ہمارا مال کچھ بھی محفوظ نہیں‘


کلسٹر بم

خاموشی میں چھپا خوف محسوس کرنا ہو تو انڈیا اور پاکستان کے بیچ برسوں سے بٹے کشمیر سے بہتر آج کل اور کوئی جگہ نہیں۔

چلیانہ کراسنگ پوائنٹ کو جاتی سڑک کے ایک طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہے، تو دوسری جانب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر۔ یہ وادی اس قدر حسین ہے کہ دونوں طرف چوٹیوں پر بنی آرمی کی پوسٹوں میں بیٹھے فوجی بھی شاید یہاں آگ برسانے سے پہلے ایک بار سوچتے ہوں گے۔

’میری عمر اسی سال ہے، جو اب دیکھ رہا ہوں پہلے نہیں دیکھا۔‘ میں نے لائن آف کنٹرول سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس گاوں میں ان ادھیڑ عمر شخص سے پوچھا تھا کہ کیا ان کے گاوں میں اس سے پہلے ایل او سی کی دوسری طرف سے یوں گولے برسائے گئے؟ وہ کہتے ہیں کہ یہاں تو زیرزمین مورچے تک نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے!

ایل او سی پر کشیدگی پاکستان اور انڈیا میں اہم اجلاس

ایل او سی پر کشیدگی: ’مودی آرٹیکل 35 اے سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں‘

’وہ کشمیر دیکھا ہی نہیں جس کا ذکر والدین کرتے ہیں’

کشمیر پر نحوست کے بادل!

چلیانہ کراسنگ پوائنٹ پیچھے چھوڑ کر ہم جبری نامی اس گاوں کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ پہاڑ کی چوٹی کی جانب بنی تقریباً نو سو میٹر لمبی کچی سڑک ہے۔ یہاں اس علاقے کی مخصوص جیپیں ہی چلتی ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ سفر کے آغاز میں ہمارے پاس چار جیپیں تھیں، واپسی پر صرف دو۔

یہ گاوں سنہ 2003 تک تقریباً روز ہی شدید فائرنگ اور شیلنگ کے باعث مکمل طور پر بند تھا۔ پھر یہ سلسلہ رکا مگر علاقہ مکینوں کے مطابق اب پھر شروع ہو گیا ہے۔ اور اب یہاں خوف کے سائے ہیں کہ شاید دونوں ملکوں میں حالات بدتر ہونے والے ہیں۔

کلسٹر بم

لائن آف کنٹرول کے قریب اسی گاؤں سے ملنے والا ایک اور کلسٹر بم جو ابھی تک نہیں پھٹا، بم کی جگہ پر چاروں طرف خاردار تاریں لگائی گئی ہیں

پاکستانی فوج نے بین الاقوامی میڈیا کے چند صحافیوں کو اس علاقے تک خصوصی رسائی دی جہاں تقریباً سولہ برس بعد بم گرائے گئے ہیں۔ پاکستان کا الزام ہے کہ یہاں کلسٹر بم پھینکے گئے ہیں۔ یہ بارودی مواد یہاں بچوں کے ہاتھ لگا جو اسے کھلونا سمجھ بیٹھے۔

عبدالقیوم کے کچے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں بچھی ہر چارپائی پر دو یا تین زخمی خواتین اور بچے لیٹے تھے۔ ان میں اٹھارہ سالہ صدف نے بتایا کہ ان کا بھائی بم پھٹنے سے ہلاک ہو چکا ہے۔ ان کی چچی دوسری چارپائی پر لیٹی درد سے کراہ رہی ہیں، وہ ابھی تک سکتے میں ہیں اور بات بھی نہیں کر سکتیں۔

کلسٹر بم

اس گھر کے صحن میں بم پھٹنے سے ایک بچہ ہلاک اور دس افراد زخمی ہوئے

’ہمیں ڈر لگا کہ مزید فائرنگ ہو گی، ہم یہاں سے نیچے گئے، گھر میں دھماکے کے بعد اندھیرا ہی اندھیرا اور دھواں تھا‘

صدف نے تیس جولائی کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا۔ وہ دھماکے کے وقت ناشتہ کر رہی تھیں۔ اسی چارپائی پر ان کے نزدیک دو اور زخمی بچے لیٹے تھے۔ صدف کے چچا عبدالقیوم نے بتایا کہ ان کے گھر بم پھٹنے سے ایک دن پہلے قریبی گھر پر گولہ گرا تھا جس میں ان کے بھائی زخمی ہوئے تھے۔

کلسٹر بم

زخمی صدف اور ان کا بھائی

’چھوٹے بچے کھیلنے وہاں گئے جہاں ایک دن پہلے دھماکا ہوا تھا، وہاں ان کو کھلونا بم ملا۔ وہ اٹھا کر لے آئے۔ یہاں باقی لوگ ناشتہ کر رہے تھے، وہ بچہ جب (بم) لے آیا تو باقی بچوں نے اسے کھلونا سمجھ کر کھینچنے کی کوشش کی۔ اس دوران وہ گرا اور دھماکہ ہو گیا۔‘

پاکستانی فوج کے مطابق اس گاوں میں کوئی فوجی چوکی نہیں اس لیے کوئی شک نہیں کہ انڈین فوج نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔

کلسٹر بم

لائن آف کنٹرول پر منقسم کشمیر، دائیں جانب پاکستان اور بائیں جانب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا علاقہ

پاکستان نے انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ اس نے گذشتہ ہفتے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کلسٹر بم پھینکے لیکن انڈیا یہ الزام مسترد کرتا ہے۔

مگر پاکستان میں اب تک چار مقامات پر ایسے بموں کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ پاکستان کے مطابق انڈیا نے کلسٹر بموں کا استعمال کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ فوج کے ایک نمائندے کے مطابق کلسٹر بم مختلف جگہوں پر پھیل جاتے ہیں، یہ لینڈ مائینز کی طرح خطرناک ہیں۔ ان کی ساخت پر منحصر ہے کہ یہ زمین یا کسی ’امپیکٹ‘ کے بعد پھٹتے ہیں یا نہیں۔ آبادی والے علاقوں میں گرنے سے بچے انھیں کھلونا سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں اور کھیل کے دوران یہ پھٹ جاتے ہیں۔‘

یہیں گاوں میں ہمیں ایک سات سالہ بچی بھی ملی جس کو قریب ہی کھیت میں بم ملا جسے ان کی ساتھی نے کھلونا سمجھ کر اٹھا لیا۔‘ میں نے اپنی دوست کے ہاتھ سے بم لیا اور دور پھینک دیا‘۔ بچی کے مطابق یہ ’کھلونا‘ کھیت میں گرتے ہی دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا جس کے بعد فوج کو اطلاع دی گئی۔

کلسٹر بم

سات سالہ بچی جسے دو روز قبل کھیت سے ’کلسٹر بم‘ ملا

عبدالقیوم اور اس گاوں کے دیگر افراد پریشان ہیں کہ نجانے یہ بم کہاں کہاں گرے ہیں کیونکہ یہاں کھیتوں میں مکئی کی فصل تیار ہو چکی ہے۔

’کچھ دن بعد یہاں فصل کی کٹائی کا موسم شروع ہو گا۔ یہ مکئی کی فصل ہے، یہ کاٹی جائے گی۔ اس کے بعد پتا چلے گا کہ یہ (بم) کہاں کہاں ہیں۔ یہ تو انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہے۔ ہم لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ فصل کی کٹائی کریں یا نہ کریں؟‘

کلسٹر بم

عبدالقیوم متاثرہ فیملی کا سربراہ

وہ کہتے ہیں کہ اب یہاں خوف و ہراس ہے، لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ ’ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں، کچھ لوگ تو تیاریاں کر رہے ہیں کہ کہیں اور منتقل ہو جائیں لیکن غریب لوگ کیا کریں؟ انڈیا نے اب جو بارڈر کے دوسری طرف کشمیر میں کیا ہے ہمیں لگتا ہے کہ اب ان کی فوج ہمیں بھی نشانہ بنائے گی، ہماری جان ہمارا مال کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp