ایران توران والوں سے ایک گزارش


اپنے گزشتہ مضمون میں راقم نے لکھا تھا کہ ٹھیک ہے آپ ہمیں ڈرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں سو اب آگے کیا؟ جس پر مختلف اقسام کے متضاد و مخلوط ردعمل سامنے آئے۔ ہندوستانی قارئین نے مضمون کو اس طور پسند فرمایا کہ یہ مشکل گھڑی میں ہندوستانی مسلمانوں کو مثبت طرزعمل کی دعوت دیتی ہوئی ایک فکر انگیز تحریر ہے جب کہ اکثر پاکستانی قارئین نے اسے دو قومی نظریے کے جواز کے طور پر دیکھا۔ پاکستانی قارئین کے ردعمل کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہوں گا، ایسا نہیں کہ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، بس سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ وقت کا زیاں ہے اور میرا اپنا خیال ہے کہ آدمی کو اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے۔

آج تک میں نے فیسبک پر پاکستان، ایران توران، امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب وغیرہ کے خلاف کوئی پوسٹ نہیں لگائی ہے اور نہ ہی کسی پاکستانی دوست سے بات کرتے ہوئے جوابی الزامات کا سہارا لیا ہے کہ ’یار تم کیا بکواس کررہے ہو، اپنے ملک کے اندرونی حالات دیکھ لو وغیرہ وغیرہ‘ ۔ یہ میرا وتیرہ نہیں اور کسی بھی غیرجانبدار مبصر کا یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے اگر سیاسی پوسٹ لکھی ہیں تو وہ خالص ہندوستانی سیاست، مسلمانوں اور ملکی سیاسی و سماجی تناظر کے حوالے سے لکھی ہیں اور جب لوگوں نے سوالات قائم کیے تو جوابی الزامات اور ایران توران کے برعکس اسی دائرے میں رہتے ہوئے جواب دیا ہے کہ کسی بھی ملک میں ایک اقلیت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، ہندوستانی مسلمان بھی انہیں سے دوچار ہیں۔

چونکہ مسلمانوں کے مسائل خالص داخلی نوعیت کے ہیں سو ان کا حل بھی داخلی ہی ہوگا خارجی نہیں۔ بہ الفاظ دیگر اگر ایران، سعودی عرب اور پاکستان ہماری مدد کرنا چاہیں تو یہ ان کے اختیار سے باہر اور بالکل غیر منطقی چیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک کاسموپولیٹن شہری ہونے کے ناتے دیگر ممالک کے بارے میں صرف یہی نیک خواہشات رکھتا ہوں کہ وہاں کے عوام ترقی کریں، آگے بڑھیں، خوش رہیں وغیرہ وغیرہ اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو میں اپنا جینا مرنا حرام نہیں کرتا۔

مشرق وسطیٰ میں اگر حالات ٹھیک نہیں ہوتے ہیں، فلسطین اگر آزاد نہیں ہوتا ہے تو میں یہاں ممبئی میں بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھنے والا ہوں لیکن ہندوستان کے ساتھ یہ رویہ نہیں ہے۔ ہندوستان میں رونما ہونے والی مثبت و منفی کوئی بھی تبدیلی ہو وہ اثر کرتی ہے کیوں کہ یہ میرا ملک ہے، یہی ملک میرا مسئلہ ہے اور یہی میرے مسئلے کا حل بھی۔ لہٰذا میرا اصل ارتکاز ہندوستان اورہندوستانی مسلمان ہیں۔ اس معاملے میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں عالمگیر مسلمان نہیں ہوں، بہت محدود ذہن کا آدمی ہوں اور بہت ہی محدود سوچ رکھتا ہوں۔

اگر آپ ایسی کوئی رائے رکھنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ یہ رویہ ورلڈ ویو رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ ایک ورلڈ ویو رکھتے ہیں توپھر زمینی سطح پر اس کا اطلاق بھی چاہتے ہیں اور اس کا آغاز وہیں سے کرتے ہیں جہاں آپ وجود رکھتے ہیں۔ یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو مسائل کی ترجیحی حیثیت متعین کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، جب آپ ان مبادیات سے محروم ہوتے ہیں تو آپ اپنے مسائل کی اصل نوعیت اور اسباب سمجھنے سے ہی قاصر ہوجاتے ہیں چہ جائیکہ ترجیحی بنیاد پر ان کے ازالے یا تصفیے کی راہ تلاش کریں۔

ایران توران کرنے والوں سے میں یہی گزارش کروں گا کہ آپ جہاں رہتے ہیں پہلے وہاں کے ہو جائیں پھر اس کے بعداگر آپ عالمگیر بنیں گے تو مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ تاریخ کے ’اگر مگر‘ میں پناہ تلاش کرنا بالغ ذہن کا کام نہیں۔ بالغ ذہن اچھا برا جو گزرچکا ہے اس کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے اور بحران کے حل کی تدابیر دریافت کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے۔

کچھ لوگوں نے پوچھا ہے کہ مسلمانوں کو اب کیا کرنا چاہیے تو اس ضمن میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان اپنا اپنا گھر ٹھیک کرلیں تو باقی سب ٹھیک ہوجائے گا، اگر ایسا ہوا تو ایک دن ’اقامت دین اور نظام مصطفیٰ‘ کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ حکومتیں اور کثیر ملکی کمپنیاں اپنے نظم و نسق اور فعالیت کو بہتر بنانے کے لئے ’ڈی سینٹرالائز‘ کرتی ہیں۔ یعنی کہ ’کنسٹرکٹو ڈی سینٹرالائزیشن‘ ، ’بروکن پین اسلامزم‘ سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس طرح کم ازکم توانائی، وقت اور وسائل ضائع تو نہیں ہورہے ہیں۔

اسی بارے میں: یقین کر لیں کہ ہندوستانی مسلمان ڈر گئے ہیں

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai