مسئلہ کشمیر کی اصل کہانی اب شروع ہوگی


مودی سرکار نے کچھ مخصوص ذہنوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا واحد ممکنہ فارمولے پر عملدرآمد کیا ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان میں کچھ طبقے اس حوالے سے بھی حقیقتاً خوش دکھائی دیتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں دیے گئے مراعات جی بی میں کیوں نہیں دیے گئے اور کئی سال قبل سٹیٹ سبجیکٹ رول سمیت دیگر ریاستی قوانین کو ختم کرتے وقت لوگوں کی چیخ و پکار کیوں نہیں ہوئی۔ پاکستان کی جانب سے معلوم نہیں کیوں اس حوالے سے نہ کوئی ٹھوس موقف اپنا یا گیا نہ ہی کوئی پالیسی نظر آگئی۔ امت اخبار کی لیڈ خبر ’ریاست ختم، کشمیر ہضم‘ جیسی صورتحال نظر آرہیہے۔

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کی وجہ سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35۔ A تقریباً لوگوں کو زبانی یاد ہوگئے ہیں۔ انڈیا کے زیر تسلط رہنے کو غلامی سے تصور کرنے والے کشمیری رہنما اور لوگوں نے اپنی تحریک اس وقت شروع کی تھی جس وقت مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کا اثررسوخ زیادہ نہیں تھا کیونکہ ریاستی اسمبلی سمیت دیگر امور پر مقامی سٹیک ہولڈرز کا اثررہا ہے۔ جس وقت انڈیا کے خلاف تحریک شروع کی گئی اس وقت کشمیریوں کو یہ خدشہ نہیں تھا ان کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، ان کو اس بات کا بھی ڈر نہیں تھا کہ وہاں کے لوگوں کو مذہبی طور پر زیر نگیں رکھنے کی سازش ہوسکتی ہے، اس وقت کا رواج یہی تھا کہ کشمیری صرف وہی ہوتا تھا جو کشمیر میں پیدا ہوگیا، جبکہ کشمیری ہونے کی بنیاد پر متعدد سہولیات اور مراعات بھی تھیں۔

ان اقدامات کی وجہ سے دیگر انڈیا کے دیگر صوبوں یا ریاستوں میں اس بات کا غم بھی تھا کہ صرف ایک ریاست کو یہ ساری مراعات کیوں دیے گئے ہیں، ایک ریاست میں دونظام نہیں چلیں گے اور ریاستوں کے مابین تفریق کا تصور ختم کیا جائے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود کشمیر یوں نے گزشتہ 70 سالوں سے اپنی جدوجہد جاری رکھی، جس کی پاداش میں انہیں ایک لاکھ لاشوں کا تحفہ ملا۔ ایک لاکھ لاشیں ایک لاکھ گھرانے اور خاندان ہوتے ہیں، جس کے ہر زاویہ اور ہر لمحے میں زخم اور لگائے گئے۔ مراعات، سہولیات اور خصوصی حیثیت کو برقرا ررکھ کر انڈیا نے اپنائیت ظاہر کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اپنے حق خودارادیت کے لئے لڑنے والے لڑتے رہے۔

کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرکے صدارتی آرڈر کے تحت نظام دینا زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ثابت ہوگا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں کشمیر کے نام پر بلائے گئے اجلاس میں سوائے غیر سنجیدگی کے دیکھنے کو کچھ بھی نہیں ملا۔ ہردلعزیز دبنگ لیڈر عمران خان صاحب نے آدھے سے زیادہ تقریر میں صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہیں تاریخ سے بھرپور شغف ہے، اور آج کل برصغیر کی تاریخ کو پڑھ رہے ہیں۔ دیگر سینیٹرز اور ممبران نے اس موقع پر بھی ایک دوسروں کو نیچا دکھانے کی ہی کوششیں کیں۔

سب سے دلچسپ صورتحال گلگت بلتستان اسمبلی کی رہی جہاں پر اس مسئلہ پر بحث کے لئے بلایا گیا سیشن کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہوگیا۔ اتنی غیر سنجیدگی دکھانے والوں کے ذہنوں کو پڑھنا مشکل نہیں ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے جیسے پاکستان نے یہ ساری صورتحال دانستہ یا نادانستہ طور پر قبول کررکھی ہے، اس بات کے اشارے وزیراعظم پاکستان کے قومی اسمبلی میں کیے گئے تقریر میں آسانی سے مل سکتے ہیں۔ لیکن معاملہ اب ختم نہیں ہوا بلکہ نئے سرے سے شروع ہوگا۔

پوری دنیا بھی اگر یہ مان لے کہ انڈیا کا اقدام درست ہے تو کشمیر کی گلیوں کو اپنے خون سے رنگنے والے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں۔ کشمیر کو جو مراعات دیے گئے تھے وہ ایک معاہدے کی بنیاد پر دیے جارہے تھے اب جب معاہدہ ختم ہوگیا تو اصولی طور پر کشمیر اور انڈیا کا تعلق ہی ختم ہوگیا ہے۔ پہلے صرف اس علاقے کا نام مقبوضہ کشمیر رکھا گیا تھا اب اصلی حالت میں مقبوضہ ہوگیا ہے، جس معاہدے کی بنیاد پر انڈیا نے کشمیر کے اس حصے کا انتظام و انصرام سنبھالا تھا وہ ختم ہوگیا ہے تو کیا اب کشمیر کی عوام خاموش رہے گی؟

اس خواب سے دنیا بہت جلد نکلے گی، محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ جیسے انڈین نواز لوگ اگر اس پر سراپا احتجاج ہیں، اور انڈیا کے ساتھ الحاق کو ’تاریخی غلطی‘ قرار دے رہے ہیں تو یاسین ملک و دیگر حریت رہنماؤں سے کیسی توقع رکھیں۔ ایک اطلاع کے مطابق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائدین نے عید کے بعد سیزفائر لائن کی طرف مارچ کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔

مسئلہ کشمیر اندرونی طور پر بھی ویسا ہی مسئلہ رہا ہے جیسا بیرونی طور پر عالمی سطح پر ہے۔ کشمیر کا نام لیتے ہی کبھی بھی گلگت بلتستان کا نام ذہن میں نہیں آیا ہے، لیکن اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرنے والے اپنے ہی جال میں پھنسے جارہے ہیں۔ گلگت بلتستان اسمبلی میں بھارتی ’جارحیت‘ کے خلاف لائی گئی قرارداد پر بحث کرتے ہوئے صوبائی وزیرتعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال و دیگر ممبران نے ایک طبقے کے امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ کرکے انڈیا کو اس بات کی شہہ دی گئی کہ وہ بھی ایسا قدم اٹھائے۔ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے نہیں بلکہ استصواب رائے کے لئے لٹکائے رکھا ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر گلگت بلتستان کو اپنا آئینی صوبہ قرار دینا چاہیے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مابین کچھ برس پہلے تک کسی حد تک تعلقات بھی تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوریاں بڑھتی گئی ہیں، جس پر غم و غصہ ایک فطری عمل بھی ہے، کیونکہ آزاد کشمیر کا سیاسی ڈھانچہ مکمل آئینی اور ریاستی ہے، جبکہ گلگت بلتستان کو صدارتی حکمناموں کے مطابق چل رہا ہے جس کو ابھی محض دس سال ہوگئے ہیں۔ بڑھتی دوریوں میں دونوں اطراف سے سازش کی گئی ہے، آزاد کشمیر کے ایک طبقے نے جی بی کے خلاف بیانات دینے اور آئینی حیثیت کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کو اپنی سیاسی پالیسی بنالی جبکہ گلگت بلتستان میں سیاسی سرگرمیاں اس مکتب خیال کی زیادہ رہیں جو سیاسی محرومیوں کو آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت سے جوڑتے تھے۔ جبکہ گلگت بلتستان کا عملی طور پر مقبوضہ کشمیر سے کسی قسم کا تعلق نہیں رہا، کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں ایک طبقہ خوشنودی حاصل کرتا رہا دوسرا مزاحمتی جدوجہد چلاتارہا۔ گوکہ رسماً جی بی میں ہمیشہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کی مذمت اور مظلوم کشمیروں کی حمایت کی گئی ہے لیکن بطور فریق نہیں۔

گلگت بلتستان کی سرزمین گزشتہ 72 سالوں سے اس بات کو رورہی ہے کہ یہاں پر سیاسی قیادت پیدا نہیں ہورہی ہے۔ اپنے حلقوں میں صرف الزامات، اگر مگر، خدشات اور خواہشات کی بنیاد پر مطالبے کرنے والوں نے پیچیدگیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ جی بی میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر اپنے ایک اصولی موقف رکھنے والوں کی تعداد گو کہ کم ہے لیکن وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ گلگت بلتستان کا الحاق پاکستان کراچی سے جڑتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے برعکس یہاں پر صرف توکلت علی اللہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل کہ پاکستان گلگت بلتستان کے حوالے سے کچھ سنجیدہ اقدامات اٹھاتا، ملکی نظام لڑکھڑاتا گیا اور آج تک سنبھل نہیں پایا ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا اشد ضروری ہے کہ مطالبے کے حصول میں صلاحیت اور قابلیت کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ صلاحیت اور قابلیت کی جانچ سڑکوں پر نہیں بلکہ متعلقہ فورم پر ہوتی ہے۔ حقوق اور فرائض میں فرائض کا شمار پہلی صف میں ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کا یہی طبقہ پاکستان سے آئینی صوبہ بھی مانگتا رہا ہے اور سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی۔ سٹیٹ سبجیکٹ رول ایک گم گشتہ حقیقت ہے جس کے الف سے یے تک سب کچھ کسی اور نشست میں اٹھالیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).