عمران فاروق کیس کے بے گناہ ملزم معظم علی کا زندہ درگور گھرانہ کیسے جشن آزادی منائے؟


چودہ اگست کی آمد آمد ہے۔ سڑکوں پہ جگہ جگہ سبزہلالی پرچم بیچنے والوں نے رونق لگارکھی ہے۔ کئی مرتبہ تو میں نے بھی سوچا کہ گھر پہ لگانے کو ایک جھنڈا خرید لوں اور ایک بیچ بھی تاکہ اپنے دل کے عین اوپر لگا سکوں۔ آج دل نے مجبور کیا کہ اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اسی ارادے سے گاڑی کو بریک لگائے ہی تھے کہ دل ودماغ میں جنگ سی شروع ہو گئی۔ دل تھاکہ کہتا تھا کہ بس ایک لمحہ ضائع کیے بنا اتروں اور سب سے بڑا جھنڈا خرید لوں اور جو بیچ سب میں خوب صورت دکھتا ہو وہ بیچ خرید لوں۔

ونڈ اسکرین پہ لگے آئینہ پہ نظر پڑی تواپناہی چہرہ دیکھ کرکپکپی آگئی یہ وہ چہرہ تونہیں تھا جواپنے بچوں کے ساتھ مل کردالان اور گلی میں رنگ برنگی جھنڈیاں لگاتاتھا صبح سویرے اپنے گھرپہ لگے اینٹنا کے ساتھ پرچم لہراتا تھا۔ آخرکو ایسا گہرا سکوت چہرے پہ کیسے اور کب آ گیا۔ میرے بڑھتے قدم جیسے وہیں تھم گئے دماغ مسکرا کر اپنی کامیابی پہ اترانے لگا ایسے منظر نگاہوں کے آگے لے آیا کہ مجھے دل کی بات رد کرنا پڑی۔

وہ صبح صادق کا وقت جب ایک گھرانہ اپنے سربراہ سے جدا کر دیا گیا۔ نا جانے اس شخص کے دل پہ اس وقت کیا بیتی ہوگی جب وہ اپنی سوا سال اور تین سالہ بچیوں کی چادر اٹھا کر نامعلوم لوگوں کے ساتھ ہو لیا۔ ننگے پیر خاموشی سے سوال کرنے کی جرت کیسے ہوتی بھلا جوان بیٹی ان نقاب پوشوں سے اپنے باپ کو لے جانے پہ بحث جو کر رہی تھی اس نے سوچا ہو گا اگر میں کچھ بولا تو کہیں میری جوان خوش شکل بچی کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں لمبے چوڑے بہت سارے مرد ہیں کوئی خاتون اہلکار بھی ساتھ نہیں۔

باپ تھا نا کرب سے تڑپا تو ہو گا شاید نگاہ بھر کے پلٹ کردیکھا بھی ہو اپنی بے بسی پہ رویا ہو گا۔ دل نے پھر ضد کی مجھ سے میں ہاتھ بڑھا کرگاڑی کا دروازہ کھولنے کو تھی کہ دماغ نے ایک اور منظر چلا دیا۔ جب میں تھانے میں قدم رکھ رہی تھی اپنی نندوں کے ساتھ۔ اجالا ابھی نہیں پھیلا تھا تھانے میں موجود لوگ عجیب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے پھرکسی ایک نے کہا بی بی سات بجے کے بعد آنا اور یہ کہتے کہتے نگاہوں کے ترازو سے جو مجھے اس نے تولا وہ کرب آج پھر ایک لہر بن کے دوڑ کیا۔

دل محبت کرنا جانتا ہے بس پھر مجبور کرنے لگا بچپن کے دن اسکول میں جشن آزادی مناتے وقت کے رقیق لمحے کوندنے لگے، وہ ترانے جو اسٹیج پہ بچیوں کے ساتھ گائے ان کی دھنیں کانوں میں بجانے لگا، میرے ہاتھ چابی کی طرف بڑھے کہ دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے جیسے اب ت وفلم سی چلا دی دماغ نے پہلے ایک مہینے کے رینجرز کے مختلف آفسز کے چکر وہ ترش انداز گفتگو وہ رعونت سبھی کچھ تو تھا اس فلم میں میری بے بسی اور لاچاری سے محظوظ ہوتے افسرز، میری درخواستوں کو ہاتھوں میں لے کے پڑھنے والے حوالدار اور ان کا اپنے رابطہ نمر دینے لینے کا منظر آدھی راتوں کوالٹی سیدھی کالز، آہ۔

کتنا سوچو گی؟ بس ایک جھنڈا ہی تولہرانا ہے، لے لو، دل نے پھر گستاخی کی۔ میں دروازہ کھول کے اتری اور جھنڈوں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ جھنڈا لینے کے لئے جوجھنڈوں پہ نگاہ ڈالی، ہر جھنڈے پہ اس شخص کا چہرہ نظر آیا جی اسی شخص کا جو شدید گرمی میں اے سی تو چلاتا تھا لیکن اپنے ملک کی محبت میں بجلی چوری نہیں کرتا تھا جس کے دروازے پہ ہمیشہ ایسے لوگوں کا رش رہتا جو اسے مسیحا مانتے تھے اسی شخص کا جو غریب بچیوں کی رخصتی اپنے گھر سے کرتا تھا جواپنے بچوں کو اعلی تعلیم دینا چاہتا تھا توغریب کے بچے کے بھی تعلیمی اخراجات اٹھاتا تھا۔

آج وہ پچھلے پانچ سالوں سے اپنی آزادی کو ترس رہا ہے اپنے ہی ملک میں جہاں ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی تھی اس نے جسے مرغی تک ذبح کرنا نہیں آتی ایسے شخص کوجو اپنے گھر کے سکون وآرام کے لئے اپنا آپ فنا کرتا تھا آج جیل کی سختیاں برداشت کر رہا ہے۔ پتلا پانی سالن سخت گرمی مچھر کیڑے مکوڑوں کے ساتھ جیل میں دن رات کی اذیتیں اٹھا رہا ہے۔ کہنے کو پانچ سال ہو گئے کیس کو وہ اب تک حوالاتی ہے۔ ایک حوالاتی کوآزادی نصیب نہیں ہو رہی۔ عدالتیں وکیل حکومتیں سب ہی اپنی اپنی بے حسی کے ساتھ جشن آزادی منائیں گی لیکن وہ شخص قید مسلسل کاٹ رہا ہے اور ناجانے کب تک یہ قید اس کے نصیب کردی گئی ہے۔

تو پھر میں کیسے آزادی کی خوشی مناؤں کیونکر جھنڈا لگاؤ ایسے گھر کی چھت پر جہاں اس کا سربراہ قید میں ہو کیونکر سینے پہ آزادی کاطوق سجاؤں جس سینے میں اس شخص کی لاچاری دیکھ کر ٹیسیں اٹھتی ہیں۔

میں نہیں مناؤ گی ایسا جشن آزادی جہاں ایک شخص کے ساتھ پورا خاندان قید کے کرب سے گزر رہا ہے۔

آہ آخردماغ جیت گیا دل ہار گیا میری ہتھیلیوں میں دبے وہ نوٹ درد کی حرارت کے پسینے سے بھیک گئے۔

لمحہ بھر میں جشن آزادی منانے کی خوشی کافور ہوگئی۔ قدم من من بھر کے ہوچکے تھے پلٹنے کے لئے ہمت چاہیے تھی۔ اپنے ہاتھ میں دبے نوٹ جھنڈا بیچنے والے بچے کے ہاتھ میں تھمائے۔ بچے نے معصومیت سے پوچھا باجی کون سا جھنڈا دوں میرے پاس الفاظ نہیں تھے میں لوٹ آئی وہیں جہاں ایک پورا خاندان اپنے بے قصور باپ کی قید کا روز سوگ مناتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).