کیا مریم نواز کو مستقبل کا لیڈر بنایا جا رہا ہے؟


لیڈر کیسے بنتے ہیں؟ کیا وجوہات ہیں کہ کچھ لوگ لیڈر بن جاتے ہیں؟ مختلف نظریات اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلاسفرانسانی تاریخ میں ہمیشہ سے لیڈرشپ کے بارے میں لکھتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں اس پر بہت کام ہوا ہے۔ اور بہت سے نئے نظریات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کچھ تو ان لیڈرز کے کردار کے متعلق ہیں اورکچھ ان رویوں کے بارے ہیں جومختلف قسم کے حالات میں اختیار کر کے لوگ لیڈر بن جاتے ہیں۔

ابتدائی دور کے ماہرین نفسیات کا خیال تھا کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ یہ آدمی حکومت کرنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے۔ لیکن جدید نظریات کے مطابق پیدائشی صلا حیتوں کے علاوہ تجربہ اور حالات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لیڈر بنتے بنتے ختم ہو جاتے ہیں اور ایک دم سے کوئی قائد کسی طرف سے سامنے آجاتا ہے جو کہ اہمیت حاصل کر لیتا ہے اور بعض مرتبہ تو ہمشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتا ہے۔

تاریخ میں ہمیں کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں کہ جنہوں نے بدلتے ہوے حالات میں دیکھا کہ کس قسم کے تبدیلیاں قوم اور خود ان کے لئے بہترین ہو سکتی ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق دنیا میں کوئی بھی ایسا قائدانہ طریقہ نہیں ہے جو کہ ہر قسم کے حالات میں کامیاب ہوسکے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ حالات لیڈر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایرانی شاعرفردوسی کی نظم ”شاہنامہ“ میں اصفہان کے ایک لوہار کی کہانی بیان کی گئی ہے جوکہ ’کاوہ آہنگر‘ کے نام سے تاریخ میں امر ہو گیا تھا۔

کہانی کچھ یوں ہے۔ قدیم زمانہ میں ایران کے ایک ظالم حکمران ضحاک کے کندھوں پر دو سانپ نکل آئے جو بادشاہ کے جسم کا گوشت کھاتے تھے۔ اگران سانپوں کو نوجوان لڑکوں کا دماغ کھلا دیا جاتا تھا تو وہ بادشاہ کا گوشت نہ کھاتے۔ بعض لوگوں کے مطابق اس نے یہ سانپ پالے ہوئے تھے اوربعض دوسروں کے مطابق اس کوکوئی جلدی بیماری تھی جس کا علاج کرنے کے لئے حکماء نے ایک دوائی بنائی جس میں نوجوانوں کا مغز استعمال ہوتا تھا۔

ایک دن بادشاہ کے سپاہی اصفہان کے لوہار ’کاوہ‘ کے دو بیٹے بھرے بازار سے اس کے سامنے اٹھا کر لے گئے۔ کاوہ نے چمڑے کاوہ ٹکڑاجو لوہاراپنی ٹانگوں کے سامنے باندھتے تھے، نیزے کے اوپر لٹکا کرجھنڈا بنا لیا اور بغاوت کر دی۔ بازار میں بیٹھے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔ اور البرزپہاڑوں میں جا کر پناہ لے لی۔ وہاں پرموجود، سابق بادشاہ، جمشید کی نسل کے ایک نوجوان فریدون نے ان کی قیادت سنبھالی اور ضحاک کے ظلم سے لوگوں کی جان چھڑائی۔

ایرانی دیومالائی داستانوں میں ”کاوہ آہنگر“ اتحاد، مزاحمت، حب الوطنی اور فریدون فتح، انصاف اورغریب پروری کی علامت بن گیا۔ اس جھنڈے کوایران میں کامیابی کی غیر مرئی علامت بنا لیا گیا۔ ایرانی کہاوتوں میں اس کو ’درفش (علم) کاویانی‘، ’درفش جمشید‘، ’درفش فریدون‘ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس پر موجود چار کونوں والا نشان، پروں والے شیر اور تین رنگ تاجکستان کے صدر کے پرچم پر آج بھی موجود ہیں۔

یہ علم ایرانی آزادی اور خود مختاری کی علامت بن گیا اوراس کے بعد ہرایرانی حکمران اس علم پر قیمتی ہیرے جواہرات جڑتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی لمبائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یہی علم جب جنگ قادسیہ میں لایا گیا تو اس کی لمبائی 22 فٹ اور چوڑائی 15 فٹ تھی۔ فتح کے بعد اس کو مال غنیمت میں مسجد نبوی میں لایا گیا۔ اس کو پکڑنے والے مجاہد کو تیس ہزار سونے کے سکے اور ایرانی سپہ سالار کی زرہ انعام میں دی گئی۔ باقی ہیرے جواہرات بانٹ دیے گئے اور حضرت عمر نے اس کو جلانے کا حکم دیا۔

ضحاک کی یہ کہانی ظاہر کرتی ہے کہ مشکل حالات میں عوامی امنگوں کے مطابق لگایا گیا ایک نعرہ بڑے بڑے ظالم اور طاقتوروں کو لے ڈوبتا ہے۔ اس طرح نسل در نسل مزدوری کرنے والا ایک لوہار لیڈر بن جاتا ہے اور ملک کی تقدیر بدل دیتا ہے۔

ماہرین نفسیات، وائٹ اور ہوجسن کے مطابق صحیح اور کامیاب لیڈر شپ صرف قائدانہ صلاحییتوں سے ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ مخالفین کے رویوں، عوام کی مشکلات، ضروریات ا اوراردگرد کے حالات کے مطابق فیصلے، لیڈرز بناتے ہیں۔ اچھا لیڈرحالات کو دیکھ کران کابغور مطالعہ کرتا ہے اور عوام کی سوچ کو مدنظر رکھ کر، کوئی ایسا عمل کر کے امر ہو جاتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت باربارکی آمرانہ مداخلتوں کی وجہ سے صحیح طریقے سے نہیں پنپ سکی۔ یہ آمراپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں، مقبول لیڈروں، ان کے خاندان اور ساتھیوں کو کسی نہ کسی بہانہ سے نشانہ بناتے ہیں۔ اس طرح نئی ابھرنے والی قیادت کو سامنے آنے سے پہلے ہی ختم کر دیتے ہیں۔ پھر لوگوں کے سامنے پرانے لیڈرز اور ان کی نسل کے کسی فرد کو لیڈر بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ پہلے ہی زیر عتاب ہوتے ہوئے، ظالموں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو تو عوام میں مقبول ہوتا جاتا ہے۔

عام طور پر یہ مزاحمت مقبول لیڈر کی بیوہ یا کوئی بیٹی زیادہ شدت سے کرتی ہے اور حکومت کے لئے درد سر بنی رہتی ہے۔

فلپائین کے آمر مارکوس کے خلاف کامیاب مہم کوری ایکینو Cory Aquino نے چلائی۔ اس کا خاوند، اپوزیشن لیڈر، جب ملک میں واپس آیا تو ائیر پورٹ پر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان، بنگلا دیش، برما، سری لنکا، نکاراگوا اور دنیا کے بہت سے ممالک میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔

سیاست اور حکومت پھولوں کی سیج نہیں۔ صدیوں سے اس کہانی میں خون ہی خون بہتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ذولفقارعلی بھٹو کی اولاد میں سے صرف وہی بچ سکا جو سیاست کی راہداریوں سے دور رہا۔ دوسری مقبول پارٹی مسلم لیگ کو یہ مثال عبرت کے نشان کے طور پر نظر آرہی تھی۔ پہلی مرتبہ نواز شریف اس ڈر سے غلطی کر گیا۔ اب پھر کو شش کی گئی کہ سزا کا فیصلہ ان کی عدم موجودگی میں سناکران کو لندن میں ہی روکا جائے۔ لیکن بابا گورونانک نے کہا تھا

جو تو پریم کھیلن کا چاؤ
سر دھر تلی گلی میری آؤ

ایت مارگ پیر دھریجے
سر دیجئے کان نا کیجئے

(اگر تمہیں پیار محبت کا کھیل کھیلنے کا شوق ہے تو سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر میری گلی میں آجاؤ اور اگر تم ایک مرتبہ اس راستہ پر چل پڑے تو اپنا سر دے دینا اور کسی اور چیز کی پروا نہ کرنا۔)

سیاست کی گلیاں، پیارکا کھیل ہیں، جن میں سر ہتھیلی پر رکھ کر آنا پڑتا ہے۔ یہ راستے قربانی مانگتے ہیں۔ پوری دنیا میں اور ہمارے علاقے میں خصوصی طور پراسی کو لیڈر مانا جاتا ہے جو سر دھڑ کی بازی لگا کرسب سے طاقتور کو للکارے اورمزاحمت کی علامت بن جائے۔ اسی لئے کہتے ہیں جیل سیاستدان کا سسرال ہے جہاں سے وہ ہمیشہ دلہن لے کر ہی نکلتا ہے۔

فرانسیسی کہاوت ہے کہ ”چیزیں جتنی بھی زیادہ بدل جائیں وہ ویسی ہی رہتی ہیں۔“ حالات بھی جتنے ہی بدل جائیں، ویسے ہی رہتے ہیں۔ جب ہم سوچتے ہیں کہ اب معاشرہ میں تبدیلی آسکتی ہے تو ہم دوبارہ انہی حالات کی طرف جا رہے ہوتے ہیں جو کہ تبدیلی کا باعث بنے تھے۔

کیا حالات ہمیں پھر 79۔ 1977 ّکی طرف لے کر جا رہے ہیں؟ کیا یہ حالات مریم کو بھی لیڈر بنا دیں گے؟ کیا ایک مرتبہ پھر پاکستان میں ایک اور بے نظیر بھٹو تیار ہو رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).