کیا سیاست دان آج ملنے والے سبق یاد رکھیں گے؟


پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں نہ آئین کو اور نہ ہی اسے بنانے والوں کو مکمل طور پر چلنے دیا گیا، کسی کو پھانسی دی گئی، کسی کو جیلوں میں ڈالا گیا، کسی کو جلا وطن کیا گیا، کسی کو گولی مار دی گئی اور اگر کوئی ایک آدھ رہ گیا تو اس کے ہاتھ پیر باندھ کر کہیں بٹھا دیا گیا، یوں کبھی بالواسطہ اور کبھی بلا واسطہ سامراجی ایجنٹوں کے ذریعے ملک میں جمہوریت کے پودے کی جڑیں بار بار اکھاڑی جاتی رہیں جس کے نتیجے میں ریاست، آذادی سے قبل ہم پر مسلط سامراج کے ہاتھوں مسلسل استعمال ہوتی رہی اور اغیار کے ایجنڈوں کی تکمیل ہوتی رہی۔

لاچارقوم کو کبھی اس ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ، کبھی سات نکاتی پروگرام اور کبھی سب سے پہلے پاکستان کے نام پر ہانک کر ذاتی اور مغرب کی خواہشات کی تکمیل کی جاتی رہی جو کہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ تا ہم وقت جو خود ایک بڑا استاد ہے ساتھ ہی ساتھ قوم اور سیاستدانوں کو بہت کچھ بتاتا اور سکھاتا گیا، جس کے نتیجے میں آج اگر آپ معاشرے کسی ان پڑھ، پڑھے لکھے یا پھر کسی بھی مکتبہِ فکر سے تعلق رکھنے والے شخص سے ملک کو درپیش مسائل اور اس کے حل کے بارے میں دریافت کریں گے تو اب وہ اپنے ووٹ کی عزت کی بات کرے گا اور ملک کے لولے لنگڑے ہی سہی لیکن جمہوری نظام میں غیر سیاسی قوتوں کی بار بار کی مداخلت پر سخت ردِ عمل دیتا اور ملک کی ترقی، آزاد خارجہ پالیسی اور مکمل خود مختاری کے لئے دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے آذاد جمہوری نطام کے قیام کا ”حل“ دیتا نظر آئے گا۔

گزرتے وقت نے اب اس ملک کے کٹھ پتلی نہیں بلکہ جمہوری سوچ کے حامل سیاستدانوں کو بھی آپس میں ساتھ بیٹھنا اورمستقبل میں غیر جمہوری قوتوں سے دور رہنا سکھا دیا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو، مریم نواز، سینیٹر عثمان خان کاکٹر، محمود اچکزئی، اسفند یار ولی اور اگر دیگر اب بھی اگر اسٹبلشمنٹ کے سامنے اپنے سینے تان کر کھڑے ہیں تو یہ اس بات کا واضع اور کھلا ثبوت ہے کہ آنے والے میں وقت میں ملک کی سیاسی قوتیں آپس میں تقسیم ہو کر کسی تیسری قوت کا ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام میں مداخلت کا موقع فراہم نہیں کریں گی۔ دعا ہے وقت کے استاد کا موجودہ سبق سیاستدانوں کو یاد رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).