خوابوں سے بہلتے روز و شب


”گھر سے باہر بندھی ہوئی گائے اچانک غائب ہوجانا، تلاش بسیار کے باوجود سراغ نہ ملنا کہ گائے کیسے اور کہاں چلی گئی یا کون لے گیا؟ پھر ہمسائے کے کھونٹے سے کیسے جابندھی۔ “ سچے خوابوں کے دعویدار دوست نے حالیہ خواب اور تعبیر بارے خاص رازدرانہ اور قائل کرنے والے لہجے میں سمجھایا کہ خواب کو حالیہ تناظر میں سمجھو، کہ مودی نے آرٹیکل 370 اور A۔ 35 کا نفاذ ختم کرکے، گھر سے باہر بندھی گائے کو ہمسائے اب گاؤ ماتا بنا چکے۔

میرے دوست جو اپنے خوابوں کے چرچے کی وجہ سے خاندان بھر اور گلی محلے میں ”بدنام“ ہیں۔ لوگ ان کو دیکھتے ہی گوشہ عافیت ڈھونڈنے میں بھلا جانتے ہیں۔ جب موصوف کو خواب اور تعبیر سنانے کے لئے نو وارد یا آزمودہ کان دستیاب نہ ہو پائیں تو جائے پناہ نہ ہونے کے باعث سب سے آسان شکار ہم ہیں۔ لہٰذا آ وارد ہوتے ہیں اور تحکمانہ انداز میں چائے نوشی کا آرڈر دے کر نیا خواب سنانے کے لئے بے چین اور سنائے جاچکے خوابوں کی تعبیر کی سچائی کا اعادہ کروانے میں ہمیشہ کامیاب ٹھہرتے ہیں۔

دوست کو سیاسی خواب آتے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اب وہ سیاست اور ریاست کے متعلق ہی سچے خواب بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ حکومت کی جیت، قیام حکومت سے متعلق، ان کا ہر خواب ”بقول ان کے“ بالکل صادق و امین قرار پایا ہے۔ اپنے ایک خواب کا تذکرہ ”جس کے مطابق ایک وجیہہ الشکل، بلند قامت، سفید رنگ روپ اور تیکھے نین نقوش کا مالک اونٹ پر سوار صحرا میں جلوہ افروز ہوا اور استقبال کے لئے مجمع خاص و عام، بلا امتیاز جنس، مرد و زن، سب منتظر، سوار صحرا میں ہی خیمہ زن ہونے کا حکم صادر کرتا ہے۔

خیمہ میں تنہا قیام پذیر ہونے کی بجائے تین جوانوں اور ایک معصوم بالک کے ساتھ سادگی کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ”خواب کی سچائی کو پورے جوش خروش سے بیان کرتے ہوئے، ہاتھ میں پکڑی تسبیح کی تیز رفتاری آواز کے زیر و بم سے آہنگ کرتے ہوئے، رفتارِ تسبیح و ورود ہماری سمجھ میں تو آج تک نہیں آ سکا اور پوچھنے کا یارا بھی نہیں۔ اس کی وجہ ماضی میں ہمارے متعلق دیکھے گئے خواب اور ان کی سچی تعبیرات ہیں۔ خیر یہ تذکرہ کچھ توقف بعد پہلے اونٹ سوار، سیاسی خواب بارے بات کرلیں۔

تسبیحِِِ رفتار، جوش اور آواز کی لے ہم آہنگ کرتے ہوئے سوار کو ”موجودہ حاکم“ اونٹ سے مراد ”ریاست مدینہ“ خیمہ سے مراد سادگی اور وزیراعظم ہاؤس میں نہ رہنا بیان کرتے ہیں۔ البتہ تین جوان ساتھ رکھنے کے استفسار پر موصوف نے ہماری ”ذہنی آلودگی“ اور ”گندی سوچ“ کا پرتو قرار دیتے ہوئے ہم پر واضح کیا کہ اتنی سادہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ فوج، عدلیہ اور انتظامیہ، تین جوان اور میڈیا بالک کو سمجھانا مقصود ہے۔ صحرا ریاست کی منظر کشی ہے یہ پوچھنے پر موصوف جو بگڑے اور تبریٰ کیا۔

ماضی کی پٹاری سے ہمارے متعلق دیکھے خواب اور ان کی حقیقتیں ہم پر خوب واضح کرنے لگے۔ گویا ہوئے کہ یاد ہے نہ وہ خواب جو میں نے کہا تھا کہ تمھاری چائے کی پیالی سے بھاپ نکلتی دیکھی ہے، تو اگلے دن تمہاری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا ناں۔ جب تم کو ایک ٹانگ پر کھڑے ہوئے بگلے کا خواب سنایا تھا تو تمہیں اگلے دن باس نے نوکری سے نکال دیا تھا ناں۔ شکاری کے روپ میں کھڑا بگلا تمھارا باس تھا اور تم شکار ہوگئے ناں۔

اب تو مجھے بھی اس کے خوابوں کی سچائی پر یقین ہوتا جا رہا تھا۔ کہ ایک اور خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔ کہ ابھی پرسوں جو خواب میں نے تم سے بیان کیا تھا۔ کہ میں نے تمھارے گھر حتیٰٰ کہ پر تکلف کھانا کھانے سے انکار کیا ہے خواب میں۔ اور تم نے ہنستے ہوئے اسے بالکل جھوٹ قرار دیا تھا۔ ویسے کل کیا پکایا تھا؟ وہ کل مٹن بنایا تھا، میں نے جواب دیا، تو زور زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ اسی لئے میں نے کھانا نہیں کھایا تھا کہ ”وہ مٹن نہیں تھا“ میراخواب جھوٹ نہیں ہوسکتا، کہتے ہوئے یہ جا وہ جا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).