انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتحال کا آنکھوں دیکھا احوال


گزشتہ پیر کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے کشمیر جس طرح بند ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بی بی سی کی گیتا پانڈے نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں دو روز تک سفر کیا جہاں لوگوں میں پایا جانے والا یہ تلخ احساس کہ انھیں دھوکہ دیا گیا ہے کسی نئے تنازع میں ڈھل سکتا ہے۔

سرینگر کے مرکز میں خان یار نامی علاقہ انڈیا مخالف مظاہروں کے لیے مشہور ہے۔ چوبیس گھنٹے کے کرفیو جیسی صورتحال کے دوران وہاں پہچنے کے لیے ہمیں چھ ایسی جگہوں سے گزرنا پڑا جہاں سڑکیں بند کی گئیں تھیں۔

جب ہم ایک اور ناکے سے گزرے تو میں تصویریں کھیچنے کے لیے اپنی گاڑی سے اتر گئی۔ وہاں کچھ لوگ قریبی گلیوں سے نکل آئے اور انھوں نے شکایت کی کہ وہ ایک محاصرے میں رہ رہے ہیں۔ ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ ’حکومت نے بدمعاشی کی حد کی ہوئی ہے۔`

وہاں تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے کوشش کی کہ ہم وہاں سے چلے جائیں لیکن وہ شخص اپنی بات سنوانا چاہتا تھا۔ اُس نے غصے میں چیختے ہوئے کہا ‘تم نے ہمیں دن رات قید میں رکھا ہوا ہے’

پولیس اہلکار نے کہا کہ یہاں کرفیو لگا ہوا ہے اور تمام لوگ فوری طور پر اندر چلے جائیں لیکن وہ بوڑھا شخص وہیں کھڑا رہا اور اس نے پولیس اہلکار کو دوبارہ چیلنچ کیا۔

اس موقع پر مجھے وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا گیا۔ لیکن اِس سے پہلے کہ میں وہاں سے جاتی ایک نوجوان اپنی گود میں اپنے بچے کو لیے میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ انڈیا کے خلاف اسلحہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

‘یہ میرا واحد بیٹا ہے۔ یہ بہت چھوٹا ہے لیکن میں اسے بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا۔’ وہ اتنے غصے میں تھا کہ اس نے پرواہ نہیں کی کہ وہ یہ سب ایک پولیس اہلکار کے سامنے کہہ رہا ہے۔

مسلمانوں کی اکثریت والی وادیِ کشمیر میں میری ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جو کہتے ہیں کہ وہ اب مزید ایسی زندگی نہیں گزارنا چاہتے جس میں ہر وقت سکیورٹی فورسز کا خوف ہو۔

کشمیر میں علیحدگی کی تحریک تو گزشتہ تیس برس سے جاری ہے لیکن یہاں سے بہت دور دلی سے آنے والے ایک ‘ آمرانہ حکم’ نے ایسے لوگوں کو بھی دیوار سے لگا دیا ہے جنھوں نے علیحدگی کی تحریک کی کبھی حمایت نہیں کی۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیر اور انڈیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

میں جہاں بھی گئی مجھے یہی جذبات اور خیالات نظر آئے۔ غصہ، خوف اور پریشانی اور مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک غصب ناک عزم۔

گزشتہ پیر کی صبح سے سری نگر میں مکمل لاک ڈاؤن ہے اور شہر میں ایک کھنڈر جیسی خاموشی ہے۔ دکانیں، سکول، کالج اور دفاتر سب بند ہیں اور شہر میں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔

بندوقیں ہاتھوں میں اٹھائے ہزاروں سکیورٹی اہلکار اجڑی ہوئی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔ جگہ جگہ خاردار تاریں اور ناکے لگے ہوئے ہیں اور لوگ گھروں میں نظر بند ہیں۔

تقریباً ایک ہفتے سے کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ حراست میں ہیں جبکہ تیسرا، جو پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہے، اپنے گھر میں نظر بند ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکن، تاجر رہنما اور اساتذہ بھی زیرِ حراست ہیں جنھیں عارضی مراکز میں رکھا گیا ہے۔

رضوان ملک کا کہنا ہے کہ ‘ کشمیر اب ایک جیل کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ایک بڑا اوپن ایئر جیل۔’

پیر کو وزیرِ داخلہ امت شاہ کے کشمیر کے لیے منصوبوں کے سامنے آنے کے بعد رضوان ملک دلی سے سری نگر پہنچے۔

انھوں نے بتایا کہ اپنے والدیں سے آخری مرتبہ ان کی اتوار کی شب کو بات ہوئی تھی جس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد حکومت نے انٹرنیٹ سمیت رابطے کے تمام ذرائع بند کر دیے تھے۔ کسی بھی طرح کی معلومات آنا بند ہو گئیں اور رضوان اپنے کسی دوست اور رشتے دار سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے اِس لیے انھوں نے سری نگر جانے کا فیصلہ کیا۔

رضوان نے سری نگر میں اپنے والدیں کے گھر میں مجھے بتایا ‘میری زندگی میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ہمارے پاس ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ میں نے پہلے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔’

رضوان ملک کو اِس بات پر بہت غصہ تھا کہ انڈیا نے مقامی لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جو علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہیں جنھوں نے مظاہروں میں حصہ لیا ہو اور سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکے ہوں۔

وہ تو پچیس برس کے ایک نوجوان ہیں جو دلی میں اکاونٹینسی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

‘اگر انڈیا چاہتا ہے کہ ہم یہ یقین کر لیں کہ وہ ایک جمہوریت ہے تو وہ خود اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کشمیر اور انڈیا کے تعلقات تو کافی عرصے سے بے چینی کا شکار رہے ہیں لیکن ہماری خصوصی حیثیت دونوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہی تھی۔ اِسے ختم کر کے انھوں نے ہم سے ہماری شناخت لے لی ہے۔ یہ کسی بھی کشمیری کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔’

رضوان کا خیال ہے کہ جب یہ محاصرہ ختم ہو گا اور مظاہرین سڑکوں پر نکلنے کے قابل ہوں گے تو ہر کشمیری ان کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ ‘یہ کہا جا تا ہے کہ ہر خاندان میں ایک بھائی علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا انڈین وفاق کے ساتھ ہے۔ لیکن اب انڈین حکومت نے دنوں کو متحد کر دیا ہے۔’

رضوان کی بہن رخسار رشید کی عمر بیس برس ہے اور وہ کشمیر یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کی طالبہ ہیں۔ رخسار نے بتایا کہ جب انھوں نے وزیرِ داخلہ کی تقریر سنی تو ان کے ہاتھ کانپنے لگے اور برابر میں بیٹھی ہوئی ان کی والدہ نے رونا شروع کر دیا۔

رخسار نے بتایا کہ ان کی والدہ کہہ رہی تھیں کہ ایسی زندگی سے موت بہتر ہے۔

‘میرے دادا دادی جو سری نگر کے بٹمالو علاقے میں رہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ علاقہ افغانستان بن گیا ہے۔’

انڈیا کچھ عرصے سے اپنے حالیہ فیصلے کی تیاری کر رہا تھا۔ حکومت نے گزشتہ مہینے اعلان کیا تھا کہ وہ مزید 35 ہزار فوجی کشمیر میں بھیج رہی ہے۔ اِس علاقے میں پہلے ہی دنیا میں سے سب زیادہ فوجی تعینات ہیں کیونکہ یہ دو جوہری طاقتوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔

گزشتہ ہفتے ہندوؤں کی سالانہ امرناتھ یاترہ کو اچانک روک دیا گیا اور حکام نے کہا کہ انھیں دہشتگردی کا خطرہ تھا۔ اس کے بعد ہوٹل اور ڈل جھیل پر ہاوس بوٹس کو بھی بند کر دیا گیا اور سیاحوں سے کہا گیا کہ وہ کشمیر سے چلے جائیں۔

کشیر میں سبھی کو یقین تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ لیکن جن درجنوں افراد سے میں نے بات کی کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ حکومت اس حد تک جا سکتی ہے کہ آئین کے ایک حصہ کو ہی ختم کر دے۔

انڈین میڈیا میں کچھ لوگوں نے رپورٹ دی کہ کشمیر میں اب تک کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا ہے اِس کا مطلب ہے کہ لوگوں نے حکومت کے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے۔

لیکن میں نے جو کشمیر دیکھا ہے وہ ابل رہا ہے۔ انڈیا کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری مسلح تحریک کی رپورٹنگ کے لیے میں گزشتہ بیس برس سے اِس خطے میں جا رہی ہوں۔ لیکن اِس مرتبہ جس طرح کا غصہ اور تلخی ہے وہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فیصلے کی واپسی سے کم کوئی بات ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ لیکن نریندر مودی کی حکومت عموماً اپنے فیصلے واپس نہیں لیتی اور اِسی وجہ سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ مزاحمت کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

ہائی سکول کی طالبہ مسکان لطیف اِس صورتحال کو طوفان سے پہلے کی خاموشی قرار دیتی ہیں۔

‘یہ ایسے ہی ہے جیسے سمندر تو پرسکون نظر آتا ہے لیکن سونامی ساحل سے ٹکرانے والا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp