لبرل ازم کا زوال اور امرا شاہی حکومت: یووال نوح ہراری


تحریر: یووال نوح ہراری۔
مترجم: عدنان خان کاکڑ۔

بیسویں صدی کے اختتام پر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ فاشزم، کمیونزم اور لبرل ازم کے درمیان لڑی جانے والی عظیم نظریاتی جنگوں کا نتیجہ لبرل ازل کے بے پناہ غلبے کی صورت میں نکلا ہے۔ جمہوری سیاست، انسانی حقوق اور فری مارکیٹ کیپٹل ازم بظاہر ساری دنیا کو فتح کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن حسب معمول تاریخ نے ایک غیر متوقع موڑ لیا اور فاشزم اور کمیونزم کے انہدام کے بعد اب لبرل ازم ایک مشکل میں گرفتار ہے۔ تو ہم کس سمت جا رہے ہیں؟

سنہ 1938 میں انسان تین عالمی کہانیوں سے انتخاب کر سکتے تھے، 1968 میں صرف دو، 1998 میں ایک واحد کہانی رائج ہوتی دکھائی دی، اور 2018 میں ہمارے پاس کوئی کہانی نہیں بچی۔

روس لبرل جمہوریت کا ایک متبادل ماڈل دیتا ہے لیکن یہ ماڈل ایک مربوط سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ”امرا شاہی“ (اولگ آرکی) ایک ایسا سیاسی انتظام ہے جس میں چنیدہ افراد ایک ملک کی بیشتر دولت اور طاقت پر قبضہ کر لیتے ہیں، اور پھر میڈیا پر اپنے کنٹرول کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے اعمال کو چھپاتے ہیں اور اپنے اقتدار کو مستحکم کر لیتے ہیں۔ جمہوریت ابراہام لنکن کے اس اصول پر مبنی ہے کہ ”آپ تمام لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بے وقوف بنا سکتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ، لیکن آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف نہیں بنا سکتے“۔

اگر ایک حکومت کرپٹ ہو اور لوگوں کی زندگی بہتر کرنے میں ناکام ہو جائے، تو شہریوں کی ایک معقول تعداد کو آخر کار اس بات کا احساس ہو جائے گا اور وہ حکومت تبدیل کر دیں گے۔ لیکن حکومت کا میڈیا پر کنٹرول لنکن کی اس منطق کی بیخ کنی کر دیتا ہے کیونکہ یہ امر لوگوں کو سچ جاننے سے روک دیتا ہے۔ میڈیا پر اپنی اجارہ داری کے سبب امرا شاہی حکومت اپنی ناکامیوں کی وجہ مسلسل انداز میں دوسروں کو ٹھہرا سکتی ہے، اور لوگوں کی توجہ بیرونی خطروں، خواہ وہ حقیقی ہوں یا تخیلاتی، کی طرف مبذول کروا دیتی ہے۔

جب آپ امرا شاہی حکومت کے تحت زندگی گزار رہے ہوں تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی بحران سر اٹھائے ہوتا ہے جو بورنگ کاموں مثلاً صحت عامہ اور آلودگی پر ترجیح پا لیتا ہے۔ اگر قوم ایک بیرونی حملہ یا شیطانی تخریب کاری کا سامنا کر رہی ہو تو کس کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پرہجوم ہسپتالوں اور آلودہ دریاؤں کے بارے میں پریشان ہو؟ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے بحرانوں کا سیلِ رواں تخلیق کرنے کے بعد ایک کرپٹ امرا شاہی اپنی حکومت کو ہمیشہ کے لئے طوالت بخش سکتی ہے۔

گو عملی طور پر پائیداری رکھنے والا یہ نظام کسی کے لئے کشش نہیں رکھتا۔ دوسرے نظریات کے برخلاف جو فخریہ انداز میں اپنے خوابوں کی تعبیر بیان کرتے ہیں، امرا اپنے اعمال پر فخر محسوس نہیں کرتے، اور وہ دھوکہ دینے کے لئے دوسرے نظریات کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

اسی لئے روس یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک جمہوریت ہے، اور اس کی لیڈر شپ یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ امرا شاہی حکومت کی بجائے روسی قوم پرستی اور مذہب کی وفادار داعی ہے۔ برطانیہ اور فرانس کے دائیں بازو کے انتہا پسند روسی مدد پر انحصار کر سکتے ہیں اور پوتن کی تعریف میں رطب اللسان ہو سکتے ہیں، لیکن ان کے ووٹر بھی ایک ایسے ملک میں رہنا پسند نہیں کریں گے جو روسی ماڈل کی نقل کرتا ہو۔ ایک ایسا ملک جہاں کرپشن کی وبا، کام نہ کرنے والی خدمات، لاقانونیت، اور بے پناہ عدم مساوات ہو۔

بعض اعداد و شمارات کے مطابق روس دنیا کے سب سے زیادہ عدم مساوات رکھنے والے ممالک میں شامل ہے جس میں ملک کی 87 فیصد دولت صرف دس فیصد لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ فرانس کے نیشنل فرنٹ کے کتنے ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے سپورٹر فرانس میں دولت کی تقسیم کا ایسا ماڈل نقل کرنا چاہیں گے؟

انسان اپنے قدموں سے اپنے ووٹ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں اپنے سفر کے دوران میں بہت سے ملکوں میں ایسے بے شمار لوگوں سے ملا ہوں جو امریکہ، جرمنی، کینیڈا یا آسٹریلیا جانے کے خواہش مند ہیں۔ چند ایسے بھی ملے ہیں جو چین یا جاپان جانا چاہتے ہیں۔ لیکن میں ابھی تک ایک بھی ایسے شخص سے نہیں ملا جو روس کی امیگریشن لینے کا سپنا آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہو۔

جہاں تک عالمی اسلام کی بات ہے تو یہ بنیادی طور پر ان افراد کے لئے پرکشش ہے جو اس کی گود میں جنمے ہوں۔ یہ شام اور عراق کے کچھ لوگوں کے لئے تو کشش رکھ سکتا ہے، حتی کہ جرمنی اور برطانیہ کے تنہائی کا شکار چند نوجوانوں کے لئے بھی، لیکن یہ دیکھنا مشکل ہے کہ کینیڈا یا جنوبی کوریا کا تو خیر ذکر ہی کیا، یونان یا جنوبی افریقہ کے لوگ بھی کسی عالمی خلافت کو اپنے مسائل کا حل سمجھیں۔

اس معاملے میں بھی لوگ اپنے پیروں سے ووٹ دیتے ہیں۔ جرمنی کے ہر ایسے ایک مسلم نوجوان کے لئے جو مسلم مذہبی حکومت کے تحت رہنے کے لئے مشرق وسطی کا سفر کرے، مشرق وسطی کے غالباً سو نوجوان مخالف سمت میں سفر کرنا پسند کریں گے تاکہ وہ لبرل جرمنی میں ایک نئی زندگی شروع کر سکیں۔

یہ اس بات پر دلالت کر سکتا ہے کہ اعتماد کا موجودہ بحران گزشتہ بحرانوں سے کہیں کم شدت رکھتا ہے۔ کوئی لبرل جو گزشتہ چند برسوں کے واقعات سے مایوسی کا شکار ہو گیا ہو، اسے یہ یاد کرنا چاہیے کہ سنہ 1918، 1938 یا 1968 میں حالات کتنے زیادہ برے دکھائی دیتے تھے۔

انجام کار، انسانیت لبرل کہانی کو ترک نہیں کرے گی، کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ لوگ غصے میں مبتلا ہو کر اس نظام کے پیٹ میں ایک زور دار لات رسید کر سکتے ہیں، لیکن کوئی دوسری راہ نہ پا کر آخر کار وہ اسی لبرل نظام کی طرف پلٹیں گے۔
یوال نوح ہراری کی کتاب “اکیسویں صدی کے لئے اکیس اسباق” سے ایک اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).