کشمیر: ایل او سی پر کشیدگی کے بعد نقل مکانی پر مجبور خاندان


مسئلہ کشمیر

لائن آف کنٹرول پر بسنے والے کشمیری خاندان بے یقینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازع کشمیر کو تقسیم کرتی لائن آف کنٹرول یوں تو سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزبوں کی وجہ سے مشہور ہے لیکن یہاں کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جن کی وجہ شہرت دونوں اطراف کا ملاپ ہے۔

جیسا کہ چلیانہ تیتوال کراسنگ پوائنٹ، یہاں سے پیدل ہی یہ لائن آف کنٹرول پار کی جاتی ہے۔ مگر جب یہ کراسنگ پوائنٹ بند ہو جائے تو ارد گرد رہنے والے اسے قدرت کی طرف سے کچھ بُرا ہونے کا ‘اشارہ’ سمجھتے ہیں۔ اس دوران ایل او سی پر فائرنگ ہو جائے تو انھیں اس اشارے پر یقین بھی ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’میں اپنے بیٹے کو بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا`

کشمیر میں کلسٹر بم: ’ہماری جان، مال کچھ محفوظ نہیں‘

کیا کشمیر واقعی ’خوبصورت قید خانہ‘ ہے؟

کچھ برا ہونے کا اشارہ

ایل او سی پر حالات کشیدہ ہونے کے بعد یہاں کے مکین بنکرز میں چلے جاتے ہیں اور فائرنگ رکتے ہی کئی خاندان محفوظ پناہ کی تلاش میں کچھ دنوں کے لیے قریبی شہروں کا رخ کر لیتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کو رواں برس فروری سے اب تک کچھ برا ہونے کے یہ اشارے کئی بار ملے ہیں۔

ہم نے چلیانہ کراسنگ پوائنٹ سے کچھ فاصلے پر موجود ایک درجن گھروں پر مشتمل چھوٹے سے گاؤں میں کم از کم دو گھر ایسے دیکھے جن کے مکین حالات خراب ہونے کے پیش نظر یہاں سے چلے گئے ہیں۔ ایک گھر پر کچھ ہی دن پہلے ایک گولہ گرا، جس سے اس کی کچی چھت کو نقصان پہنچا تھا۔

گاؤں کے ایک اور رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ان کے اور ارد گرد کے دیہاتوں کے لوگ کافی پریشان ہیں۔ ہم اتنے غریب ہیں کہ کہیں شہر میں نہیں جا سکتے۔ اس لیے مجبوری ہے کہ اپنی اور اپنے بچوں کی جان اللہ پر چھوڑتے ہیں اور یہیں رہ رہے ہیں۔ اب جو کشمیر میں ہوا ہے اس کے بعد یہی خوف ہے کہ ہم پر بھی حملہ ہوگا۔’

ان کی بھتیجی نے کہا کہ اس گاؤں میں سب کا بچپن ہی گولیوں کی گھن گرج میں گزرتا ہے۔ ‘اب تو ہمیں پتا ہے کہ یہی ہماری زندگی ہے، یہی اپنا گاؤں اور اپنی زمین ہے۔ ہاں ڈر تو لگتا ہے، ظاہر ہے میرا تو ایک بھائی اسی فائرنگ سے ہلاک ہوا ہے، مگر کیا کریں ہماری تو دو وقت کی روٹی یہ زمینیں اور مویشی ہیں، انھیں چھوڑ کر کہاں جائیں؟’

لیکن ان میں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو انڈیا اور پاکستان میں حالات کشیدہ ہوتے ہی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ قدرے محفوظ علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

ایل او سی

میرا بچہ کہتا ہے کہ بنکر میں اس کا دم گھٹتا ہے

’بچوں کے آدھے کپڑے اٹھائے آدھے نہیں لا سکی‘

نجمہ بی بی کا خاندان ایک ہفتے سے اپنے بچوں اور دیگر اہلخانہ کے ہمراہ مظفر آباد میں ایک کرائے کے گھر میں مقیم ہیں۔ جوراہ نامی ان کے گاؤں میں گذشتہ ہفتے شدید فائرنگ کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

‘فائرنگ تو دو تین دن سے چل رہی تھی اس لیے زیادہ تر وقت زمین کے نیچے بنے بنکرز میں گزرتا تھا۔ میں پانی بھرنے جا رہی تھی کہ ایک دم پورا گاؤں گولیوں کی بوچھاڑ سے لرز اٹھا۔ میں وہیں بیٹھ گئی۔ میں رو رہی تھی اور مجھے اس لمحے یقین ہو گیا تھا کہ مجھے اب گولی لگے گی اور میں مر جاؤں گی۔ چند لمحوں کے لیے گولیوں کا شور ختم ہوا تو میں بھاگتی ہوئی گھر پہنچی’۔

شیلنگ سے ان کے گھر کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت ان کے اہلخانہ نے فیصلہ کیا کہ انھیں مظفر آباد جانا چاہیے۔ ‘کچھ سامان ہم نے اٹھایا، کچھ نہیں اٹھا سکے، بچوں کے آدھے کپڑے اٹھائے آدھے نہیں لا سکی، کھانا پکا ہوا کھلا چھوڑ کر نکلے کچھ سمیٹ نہیں سکے، کچھ دروازے لاک کیے کچھ کھلے چھوڑ کر آ گئے۔’

ان سے پوچھا کہ اب گاؤں میں کیا حالات ہیں تو انھوں نے بتایا کہ حالات تو ویسے ہی ہیں، ‘لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہاں کشمیر میں حالات اتنے خراب ہو سکتے ہیں کہ کسی کو پھر گھر سے نکلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ ہم دو دن یہاں گزارنے کے بعد واپس گھر پہنچے تو پتا چلا کہ انڈیا نے کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے۔ ہم نے سری نگر میں اپنے رشتہ داروں سے رابطے کرنے کی کوشش کی مگر کہیں سے کوئی خبر نہیں تھی۔ ہم ایک گھنٹے بعد ہی دوبارہ گاؤں سے نکل آئے۔’

نجمہ نے بتایا کہ گاؤں میں خوف و ہراس ہے۔ ‘میرا بچہ کہتا ہے کہ بنکر میں اس کا دم گھٹتا ہے۔ ایک ایک بنکر میں تین چار خاندان رہتے ہیں، رات بھر مورچوں میں بیٹھے رہتے ہیں، ایسا نہیں کہ سو جاتے ہیں، بس بیٹھے رہتے ہیں۔ تین چار گھنٹوں کے لیے باہر نکلتے ہیں، کام نمٹا کر، کھانا پکا کر پھر بنکر میں چلے جاتے ہیں۔’

نقل مکانی

لائن آف کنٹرول پر شیلنگ زیادہ ہو جائے تو ان دیہاتوں میں موجود خاندان جان بچانے کے لیے مظفر آباد، میرپور سمیت دیگر محفوظ علاقوں میں آتے ہیں

خوف اور بے یقینی غالب

لائن آف کنٹرول پر شیلنگ زیادہ ہو جائے تو ان دیہاتوں میں موجود خاندان جان بچانے کے لیے مظفر آباد، میرپور سمیت دیگر محفوظ علاقوں میں آتے ہیں۔ یہاں عارضی طور پر منتقل ہونے والے ان شہریوں کے لیے کیمپس بھی بنائے جاتے ہیں۔ محفوظ سمجھے جانے والے ان علاقوں میں آج کل زندگی تو معمول کے مطابق گزرتی نظر آتی ہے۔ مگر یہاں خوف اور بے یقینی بھی غالب ہے۔

لوگ سودا سلف خرید کر گھروں میں رکھ رہے ہیں کہ بعد میں نجانے موقع ملے یا نا ملے۔

رابطوں کے فقدان کے باعث لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب رابطے نا ہونے سے بھی انھیں لگتا ہے کہ اب کی بار تعلقات خراب ہوئے تو بات دور تک جائے گی۔

آرٹیکل 370

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین مخالف مظاہروں ک سلسلہ جاری ہے

انڈیا مخالف مظاہرے

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہفتے سے انڈیا مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ ہر روز دن میں کئی بار یہاں مختلف جماعتیں اور گروہ، مرد و خواتین، انڈیا کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی یہ مظاہرین اقوام متحدہ کے آبزروری گروپ کے دفتر کے سامنے بھی جاتے ہیں۔ اور کبھی چوک میں ہی ریلی نکال کر کچھ دیر بعد اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے ہے یا ان کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد وہاں رہتی ہے۔ انھیں کے بیچ چند قوم پرست جماعتیں بھی احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔

یہ جماعتیں کسی بھی ملک کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی مخالفت کرتی ہیں۔ یہ چاہتی ہیں کہ پوری ریاست کشمیر ایک ہو اور خود مختار ہو۔ یہ مظاہرے ارد گرد موجود دکانداروں اور تاجروں کو مزید تذبذب میں دھکیل رہے ہیں کہ آنے والا وقت یہاں کے لوگوں کی زندگی میں مزید کیا پریشانی لائے گا۔

کشمیر

ایل او سی کے قریب بسنے والے افراد کا کہنا ہے کہ بچپن سے بڑھاپے تک ہم گولیوں اور نقل مکانی کے بیچ ہی زندگی گزارتے ہیں

’بچپن سے گولیوں اور نقل مکانی کے بیچ گزری زندگی‘

ہم نے بازار میں ایک تاجر سے بات کی۔ انھوں نے کاروبار ٹھپ ہونے کا نقشہ کچھ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

‘اس وقت تو بہت سی پریشانیاں ہیں۔ سب سے بڑی تو یہ کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ کوئی خبر نہیں کہ رشتہ دار کس حال میں ہیں۔ وہ ایک الگ پریشانی ہے ہمارے لیے۔ ہمارا کاروبار ارد گرد موجود ان دیہاتوں سے چلتا ہے، لوگ مال خریدتے ہیں، چھوٹے بازاروں میں لے کر جاتے ہیں۔ کشمیر سے تجارت تو ویسے بھی بند ہو گئی ہے۔ جب سیز فائر ختم ہوتا ہے تو مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد مظفر آباد آ جاتی ہے۔ بے یقینی کاروبار کو سخت متاثر کرتی ہے۔ ایک ایک دو دو مہینے ہمیں گاہک تک نظر نہیں آتا مارکیٹ میں، ہماری یہ پوزیشن ہو جاتی ہے۔’

ایل او سی پر فائرنگ نئی بات ہے نہ ہی شہریوں کا گھر بار چھوڑ کر کسی محفوظ کیمپ میں منتقل ہونا۔ مگر اس ساری کشمکش کے بیچ نجمہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان رہتی ہیں۔

’ہم جب گھروں سے نکلتے ہیں تو واپسی کا پتا نہیں ہوتا، بچوں کے سکول گاؤں میں ہیں، ان کی تعلیم وہیں رک جاتی ہے اور بچپن سے بڑھاپے تک ہم گولیوں اور نقل مکانی کے بیچ ہی زندگی گزارتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp