عید قرباں کمرشلائزیشن کی زد میں


عید الفطر سے لے کر عید الاضحیٰ تک، محرم الحرام سے لے کر ربیع الاول تک، رمضان المبارک سے لے کر ذوالحج کے مہینے تک، پاکستان میں سب کُچھ کارپوریٹ میڈیا کی زد میں ہے۔ ریاست کا چوتھا ستون تجارتی اور محض کاروباری مقاصد کے پیش نظر آپریٹ کر رہا ہے یہ سب دیکھ کر نوم چومسکی کے میڈیا سے متعلق تصورات سو فیصد درست معلوم ہوتے ہیں۔

وہ خواتین و مرد اینکرز جو سارا سال خبروں، تجزیوں، فیشن شوز، گیم شوز اور مارننگ شوز میں مصروف رہتے ہیں، مقدس مہینے آتے ہی عبادات کا درس دینے کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ مذہبی تہواروں کو کمرشلائز کر کے منافع کمانے کا یہ سفر یہاں نہیں رُکتا بلکہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے مذہب کے تاثر پر بھی اثر انداز ہونا شروع کر دیا ہے۔

عید الاضحیٰ حج کی ادائیگی کی خوشی میں منائی جاتی ہے اور اس سے وابستہ قربانی کے مقدس فریضے کی بہرحال ایک تاریخی اہمیت ہے۔ تاہم قربانی کے اس نظریے کو بھی میڈیا کے ادارے صرف جانور ذبح کرنے کا تہوار بنا کر بخوبی پیش کر رہے ہیں، جبکہ اس کی حقیقی روح سے ناآشنا رکھا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ ٹی وی چینلوں پر قربانی کے جانوروں کا تقدس بھی پامال کیا جاتا ہے، جس سے یہ کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ پورا کام سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں کیا جا رہا ہے۔

ٹی وی ریٹنگز کے لیے کارپوریٹ مقاصد کو مذہب کے ساتھ بہت خوبی سے جوڑا گیا ہے، اور اس کا یہ دائرہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ قربانی کے جانوروں کے نام رقاصاؤں اور اداکاروں کے ناموں پر، کوئی جانور بنٹی ہے تو کوئی ببلی۔ صرف یہیں تک نہیں، بلکہ قربانی کے ان جانوروں کی خوبصورتی کو بھی اداکاراؤں کے جلووں نے گھیر لیا ہے۔ کہیں جانوروں کو کیٹ واک کروائی جارہی ہے تو کبھی ان کا مقابلہء حُسن کروا کر دولت کی نمود و نمائش ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن کی جانب سے قربانی کے خوبصورت جانوروں کے فیشن شوز کو براہ راست دکھانے کی بازی لینے کے دعوے اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ قربانی کے عظیم مقصد کو بھی انٹرٹینمنٹ بنا دیا گیا ہے۔

برقی میڈیا پر قربانی کے جانوروں کی کوریج کے انداز سے ان اداروں میں بیٹھے افراد کی ذہنی بالیدگی اور ان کے پروفیشنل ازم کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مویشی منڈیوں میں جانوروں کی انواع و اقسام پر پُر مغز گفتگو، جگتوں پر مبنی پروگرام، بیوپاریوں کے ساتھ طنز و مزاح اور قربانی سے متعلق تفریح پر مبنی پروگرامز نشریات کا اہم ترین جزو بن گئے ہیں۔ دین کی روح کو مجروح کرنے کا جو کاروبار جاری ہے، اس کے خلاف عوام میں ردِ عمل تک نہیں ملتا، کیوں کہ عوام کا ذہن بھی اسی سانچے میں ڈھالا جا چکا ہے۔

پاکستان کے نیوز چینلز نے عوامی مہم چلا رکھی ہے جس میں شہریوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے جانور کے ساتھ سیلفی بنائیں، چینل اُنہیں پورے اہتمام کے ساتھ نشر کرے گا۔ لہٰذا مویشی منڈی میں سیلفیاں، جانور گھر لانے پر سیلفیاں، قربان کرنے سے پہلے سلیفیاں میڈیا کا پسندیدہ موضوع بن چکا ہے، بلکہ اگر کہیں کیمرہ مین کو یہ منظر عکس بند کرنے کو نہ ملے تو وہ خود سے کسی کو کہہ کر ایسا منظر کو تخلیق کر لیتا ہے۔

آج جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیلفیاں دراصل ہماری خودپسند فطرت کی عکاس ہوتی ہیں، اور جس شخص میں خودپسندی زیادہ ہو، وہ سیلفیاں بھی زیادہ لیتے ہیں۔

بہرحال، ہر کسی کا انفرادی عمل اس کے ساتھ، مگر یہ کیا کہ پوری قوم کو جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لینے پر لگا دیا جائے۔ بچوں کے ذہنوں میں اگر ابھی سے یہی بات بٹھا دی جائے گی کہ مہنگے سے مہنگا جانور لینا ہے، اچھی سے اچھی سیلفی لینی ہے، تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر قربانی کو نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے اسلامی فریضہ سمجھ کر ادا کریں گے؟ اور صرف میڈیا کو ہی قصوروار کیوں ٹھہرایا جائے؟ کیا ہمارے عوام اس سب میں کسی سے پیچھے ہیں؟ میڈیا تو جو کر رہا ہے، وہ اپنی جگہ، مگر عوام بھی میڈیا کو پیچھے چھوڑ دینے کے لیے قربانی کے جانوروں کی نمود ونمائش میں اپنا حصہ ڈالنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔

گلی محلوں میں جانوروں کے ساتھ جو اٹھکھیلیاں کھیلی جاتی ہیں اور پھر مہنگے جانوروں کے جس انداز میں چرچے ہوتے ہیں، اپنے اپنے جانوروں کے ساتھ ویڈیوز بنا کر فیس بک کی دیواروں پر چھاپ دینا اور پھر ان پر طرح طرح کے تبصروں کا انتظار کرنا، اس سے بظاہر لگتا ہے کہ جانوروں کی قربانی فیشن انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس میں رضائے الٰہی نہیں بلکہ ہمسایوں اور رشتے داروں کے سامنے مالدار ہونے کا رُعب ودبدبہ رکھنے کی خواہش شامل ہوتی ہے۔

قربانی کے دن ٹی وی چینلز پر طرح طرح کے پکوان تیار کرنے کے مشوروں، عید الاضحیٰ کے مقدس دن کو شغل میلہ بنانے اور اداکاراؤں کے جلووں کی زینت بنا کر عوام الناس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، کسی ٹی وی چینل پر چپل کباب کی تیاری کا وقت ہے تو کسی پر رانوں کی تیاری کا، کسی ٹی وی پر سری پائے تیار ہو رہے ہیں تو کسی ٹی وی پر نہاری بنانے کے آزمودہ نسخوں پر ماہرانہ رائے عوام کو پیش کی جاتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسی دین کا تہوار ہے جس دین کی تعلیمات میں یہ ہے کہ پھل کھا کر چھلکے باہر نہ پھینکو کہ کہیں غریب پڑوسی کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو؟

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی جو قربانی مانگی تھی وہ رسم نہیں تھی بلکہ اس قربانی میں بہت سی باتیں مخفی ہیں جو قرآن پاک نے تفصیل سے بیان کر رکھی ہیں۔ عوامی سطح پر اس واقعہ کی حقیقت و ماہیت سے متعلق عدم شعور رکھنے کے لیے میڈیا اسے کارپوریٹ رُخ کی طرف لے گیا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی گرفت میں قائم ریٹنگ کے تصورات کا سہارا لے کر میڈیا مالکان اپنی ذمہ دار سمجھنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس پر کبھی سوچ بچار کی گئی ہے۔ عبادات کو کھیل و تفریح میں تبدیل کرنا اور کارپوریٹ کلچر کے ماتحت کر دینا کیا یہ دینی فریضہ ہے؟ میڈیا یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے مبراء نہیں ہو سکتا کہ ہم وہی دکھاتے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد رائے عامہ کو ہموار کرنا اور ذہن سازی ہوتا ہے۔ اگر میڈیا جانوروں کے فیشن شوز کی ترویج کرنا چھوڑ دے، تو یہ رجحان خود ہی ختم ہو جائے گا۔

پاکستان کی نوجوان نسل بالخصوص تعلیم یافتہ افراد کو یہ سوچنا ہوگا کہ میڈیا کس قسم کا مواد ان کے ذہنوں میں اُنڈیل رہا ہے اور عوام کو بطور صارف سمجھ کر پروگرامز کی صورت میں کیسی کیسی مصنوعات فروخت کی جارہی ہیں۔ قربانی کے اہم ترین دینی فریضے کا میڈیا کے ہاتھوں کارپوریٹ استعمال ہونا قومی سطح پر لمحہ فکریہ ہے اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فلسفہ قربانی کے حقیقی تصورات سے قوم کو عاری رکھنے کے لیے اسے محض تہوار تک محدود کر کیا جارہا ہے۔ وگرنہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی عظیم قربانی کے فلسفے پر علماء حق سے مکالمے کرائے جاتے، سماج سے ظلم کے خاتمے کے لیے انسانی کردار کے مختلف پہلوؤں پر گفت و شنید ہوتی۔ میڈیا کے ہاتھوں فریضے کی یوں قربانی ہونے پر ہمیں شعوری طور پر سوچنے کی ضرورت ہے نہیں تو ہمیں ذہنی پستی کی گہرائی میں مزید دھکیلا جائے گا جہاں سے واپسی مشکل ہوجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).